تھرپارکر میں درخت سے لٹکی دو بہنوں کی لاشیں، ’یہ خودکشی نہیں قتل ہے‘
تھرپارکر میں درخت سے لٹکی دو بہنوں کی لاشیں، ’یہ خودکشی نہیں قتل ہے‘
منگل 12 نومبر 2024 16:38
زین علی -اردو نیوز، کراچی
مقامی رہائشیوں نے پولیس کو اطلاع دی کہ دو لڑکیوں کی لاشیں درخت سے لٹکی ہوئی ہیں (فائل فوٹو: آئی سٹاک)
سندھ کے صحرائی علاقے تھرپارکر کا گاؤں پبھوہار سوگ میں ڈوبا ہوا ہے۔لوگ ایک دوسرے کی جانب دیکھ تو رہے ہیں مگر خاموش ہیں۔
پولیس کی بھاری نفری گاؤں میں موجود ہے اور آنے جانے والے ہر فرد سے تفتیش کر رہی ہے اور اُن سے اُن کے گذشتہ دنوں کی سرگرمیوں کے بارے میں سوالات کیے جا رہے ہیں۔
ماجرا کچھ یوں ہے کہ گاؤں کے ایک درخت سے دو کم عمر بہنوں کی لاشیں درخت سے لٹکی ہوئی ملی ہیں۔ پولیس کے مطابق ان لڑکیوں کی شناخت 14 سال کی وینتی اور 16 برس کی ہیماوتی کے نام سے ہوئی ہے۔
دونوں لڑکیاں ہندو برادری سے تعلق رکھتی ہیں۔ درخت سے لٹکی ان لڑکیوں کی لاشیں ایک ایسی کہانی سنا رہی ہیں، جو اس گاؤں کے ماضی کی حقیقت اور موجودہ خوف کو نمایاں کرتی ہے۔
پولیس سرِدست اس بات کا پتا نہیں لگا سکی کہ آیا ان لڑکیوں نے خودکشی کی یا ان کی موت کی وجہ کچھ اور ہے؟
سندھ کے ضلع تھرپارکے گاوں پبھوہار کے رہائشیوں نے اتوار اور پیر کی درمیانی شب مقامی پولیس کو اطلاع دی کہ دو لڑکیوں کی لاشیں درخت سے لٹکی ہوئی ہیں۔
اطلاع ملنے پر پولیس کی بھاری نفری موقعے پر پہنچی تو دیکھا کہ درخت سے دو لڑکیاں مردہ حالت میں لٹکی ہوئی ہیں، جن کے گلے میں رسی بندھی ہوئی ہے۔
پولیس نے فوری طور پر گاؤں والوں کی مدد سے لڑکیوں کی لاشیں درخت سے نیچے اُتاریں اور انہیں قریبی ہسپتال منتقل کیا جہاں ڈاکٹر نے لڑکیوں کی موت کی تصدیق کر دی۔
تھرپارکر پولیس کا کہنا ہے کہ ’ابتدائی طور پر جو معلومات حاصل ہوئی ہیں ان کے مطابق لڑکیوں نے خودکشی کی ہے، لیکن پولیس تمام زاویوں سے کیس کی تحقیقات کر رہی ہے اور حقائق جاننے کی کوشش کر رہی ہے۔‘
پولیس کے مطابق یہ واقعہ خودکشی کا بھی ہوسکتا ہے، لیکن تفتیش کا مقصد معاملے کی تہہ تک پہنچنا ہے۔
علاقے کے پولیس افسروں نے مزید کہا کہ ’وہ گاؤں کے رہائشیوں سے پوچھ گچھ کر رہے ہیں تاکہ اس کیس کے پسِ پردہ محرکات تک پہنچا جا سکے۔‘ کیا تھرپارکر میں درخت سے لٹکتی لڑکیوں کی لاشیں ملنے کا یہ پہلا واقعہ ہے؟
سندھ کے صحرائی علاقے تھرپارکر میں ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ کسی لڑکی کی لاش درخت سے لٹکی ملی ہو۔ اس سے قبل بھی بے شمار لڑکیوں کی پھندا لگی لاشیں درختوں سے لٹکی ملی ہیں، ان میں سے بیشتر کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ مرنے والوں نے حالات سے تنگ آکر خودکشی کی ہے۔
سینیئر صحافی عبدالقیوم باٹ نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’تھرپارکر میں ہندو برادری بڑی تعداد میں آباد ہے، یہاں بھیل سمیت دیگر قومیتیں قیام پاکستان سے بھی پہلے کی آباد ہیں۔ سرحد کے دونوں اطراف یہ قبیلے سالہا سال سے آباد ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’پاکستان اور انڈیا دونوں ہی جانب سے اکثر یہ خبریں سننے کو ملتی ہیں کہ حالات سے تنگ آکر کسی نے خودکشی کرلی ہے، ان واقعات کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔‘
’11 اور 12 نومبر کی درمیانی شب ایک بار پھر تھرپارکر سے دو لڑکیوں کی لاشیں ملی ہیں، اس سے قبل رواں سال اگست میں بھی تھرپارکر کی تحصیل نگر پارکر کے گاؤں راڑ کوو سے بھی دو بہنوں 14 نیلاں اور 16 سالہ مرواں کی لاشیں ملی تھیں۔‘
صحافی عبدالقیوم باٹ کے مطابق ’ان دونوں بہنوں کی موت کو بھی خودکشی کہا جا رہا تھا لیکن مرنے والی لڑکیوں کی والدہ نے پولیس کے سامنے موقف اپنایا اور درخواست دی کہ ان کی بیٹیوں نےخودکشی نہیں کی بلکہ انہیں قتل کیا گیا ہے۔‘
ان کا مزید کہنا ہے کہ ’پولیس نے والدہ کی درخواست پر برادری کے دو لڑکوں سے پوچھ گچھ کی تو اُن سے ان لڑکیوں کی تصاویر برآمد ہوئیں۔‘
’سندھ کے علاقے تھرپارکر میں رواں سال 70 سے زائد ایسے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں جن میں قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا ہے اور انہیں خودکشی قرار دیا گیا ہے۔ ان کیسز میں بیشتر مرنے والوں کا پوسٹ مارٹم تک نہیں کیا گیا۔‘
جامعہ کراچی کے شعبہ کریمنالوجی کی چیئرپرسن ڈاکٹر نائمہ سعید ایسے واقعات کے حوالے سے پولیس کے اس موقف سے اختلاف رکھتی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ بات درست ہے کہ سندھ کے صحرائی علاقے میں غربت، بھوک اور مشکل حالات ہیں لیکن اگر مرنے والوں کے حالات پر نظر ڈالی جائے تو ان کی موت کی وجوہات جاننے کی ضرورت مزید بڑھ جاتی ہے۔
’بیشتر کیسز میں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ لڑکیوں کو قتل کرکے درخت سے لٹکایا جاتا ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں، غیرت کے نام پر بھی لڑکیوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔‘
ڈاکٹر نائمہ سعید کہتی ہیں کہ ’رشتہ دینے یا نہ دینے پر بھی عورت ہی غصے اور انتقام کی بھینٹ چڑھتی ہے، اس کے علاوہ بھی کئی وجوہات ہیں جن کی بنیاد پر پسماندہ علاقوں میں لڑکیوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’یہ کام تو پولیس سمیت قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کا ہے کہ وہ ان کی موت کی وجوہات کو تلاش کریں۔‘
’ایک روز واقعہ ہوتا ہے، چار روز اس کا ذکر ہوتا ہے اور پھر معاملہ سرد خانے کی نذر ہوجاتا ہے۔ پولیس اگر ان علاقوں کے وڈیروں، سرداروں اور زمین داروں سے سوال کرے کہ آئے روز ایسے واقعات کیسے ہوجاتے ہیں تو شاید ان کیسز کا موثر حل نکل سکتا ہے۔‘
ڈاکٹر نائمہ سعید نے کہا کہ ’اگر ضروری اقدامات نہ کیے گئے تو قیام پاکستان سے اب تک ان علاقوں میں جو کچھ ہوتا آرہا ہے وہی مستقبل میں بھی ہوتا رہے گا، انسانی جانیں جاتی رہیں گی اور حکام انہیں نظرانداز کرکے آگے بڑھتے رہیں گے۔‘