Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لاہور میں ڈکیتی اور چوری کی وارداتوں میں 40 فیصد کمی، پولیس کارکردگی یا کچھ اور؟

حکام کے مطابق گزشتہ دو مہینوں میں ہنی ٹریپ کے چھوٹے بڑے آٹھ گینگ پکڑے گئے ہیں۔ (فائل فوٹو: پنجاب پولیس)
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ کچھ مہینوں میں چوری اور ڈکیتی کی وارداتوں میں واضح کمی دیکھی گئی ہے۔
لاہور میں ماہانہ ایسی وارداتوں کی تعداد اوسطاً 12 ہزار سے اوپر ہوتی ہے۔ مئی کے مہینے میں پولیس کو 90149 ایسی کالز موصول ہوئیں جن پر چوری اور ڈکیتی کی وارداتوں کو رپورٹ کیا گیا تاہم جون اور جولائی کے مہینے میں یہ تعداد اوسطاً چھ ہزار کے قریب قریب رہی ہے۔
اس کے ساتھ ہی لاہور میں گزشتہ چند مہینوں میں ہنی ٹریپ کی وارداتوں میں خاطر خواہ اضافہ دیکھنے میں آیا۔ جمعہ 9 اگست کو پولیس نے ایک آٹھ رکنی ہنی ٹریپ کرنے والے گینگ کو گرفتار کیا جس میں تین خواتین اور پانچ مرد کام کر رہے تھے۔ ان کا طریقہ واردات بھی خلیل الرحمن قمر کے ساتھ پیش آنے والے واقعے جیسا تھا۔
حکام کے مطابق گزشتہ دو مہینوں میں اس طرح کے چھوٹے بڑے آٹھ گینگ پکڑے گئے ہیں جو ہنی ٹریپ کے ذریعے لوگوں کو لوٹ رہے تھے۔
کیا گینگز کی گرفتاری جرائم میں کمی کی وجہ ہے؟
گزشہ ماہ لاہور میں ڈرامہ نگار خلیل الرحمان قمر کے ساتھ ہونے والے واقعے کے بعد پولیس نے 24 گھنٹوں کے اندر ملزمان گرفتار کر لیے۔ اسی طرح گزشتہ ہفتے سینیئر صحافی طاہر ملک جو اپنے اہل خانہ کے ہمراہ شمالی علاقہ جات کی سیر کو گئے تھے واپس گھر پہنچے تو چور ان کے گھر کا صفایا کر چکے تھے۔ جس میں سونے کے زیورات اور نقدی شامل تھی۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ چوری کے بارے میں پولیس کو آگاہ کیا لیکن میں ذہنی طور پر اپنے آپ کو تیار کر چکا تھا کہ اب جمع پونجی واپس آنے والی نہیں۔
’مجھے اس بات پر خوشگوار حیرت ہوئی اور تھوڑا میرے لیے ناقابل یقین بھی تھا کہ پولیس نے 24 گھنٹوں میں نہ صرف چور پکڑ لیے بلکہ چوری شدہ مال کا 70 فیصد بھی برآمد کر لیا۔ وہ ایک پورا گینگ تھا جو ریکی کر کے ایسے گھروں کو لوٹتا تھا جو کسی بھی وجہ سے اپنے گھروں سے بمع اہل و عیال نکلے ہوئے ہوں۔‘

لاہور پولیس کے دستیاب اعداوشمار کے مطابق 2024 میں اب تک تین ارب 18 کروڑ روپے سے زائد کی ریکوری کی گئی ہے۔ (فوٹوؒ: اے ایف پی)

اس حد تک تو درست معلوم ہوتا ہے کہ پولیس کی کارکردگی ہائی پروفائل کیسز میں توقعات سے زیادہ اچھی ہوتی ہے۔ موٹر وے ریپ کیس ہو یا سپریم کورٹ کے سابق جج جاوید اقبال کے باپ کا قتل، ایسا کوئی بھی ہائی پروفائل کیس اس وقت لاہور پولیس کے کندھوں پر نہیں ہے جو حل نہ ہوا ہو۔
تاہم نچلی سطح پر صورت حال شاید ویسی نہیں ہے جیسے دکھائی دیتی ہے۔ محمد عامر لاہور کے علاقے فیصل ٹاؤن کے رہائشی ہیں اور ان سے اے ٹی ایم مشین میں ہونے والی ڈکیتی کی ریکوری اب تک نہیں ہوئی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ’وہاں کیمرے لگے ہوئے تھے، میرا خیال تھا کہ پولیس بندہ پکڑ لے گی۔ ایف آئی آر تو فوری درج کر لی لیکن دو مہینے ہو گئے ہیں اس شخص کو نہیں پکڑا جو میرا ایک لاکھ روپیہ لے گیا۔‘
لاہور میں جرائم کو گزشتہ دو دہائیوں سے رپورٹ کرنے والے سینیئر کرائم رپورٹر سید مشرف شاہ سمجھتے ہیں کہ اگر یہ کہا جائے کہ جرائم میں کسی باقاعدہ حکمت عملی کی وجہ سے کمی آئی ہے تو اس بات پر یقین کرنا تھوڑا مشکل ہے۔
’اعدادوشمار نیچے اوپر ہوتے رہتے ہیں۔ کچھ مہینے لاہور پر بھاری گزرتے ہیں، ایسا بھی ہوا ہے کہ ایک رات میں 40 چوری اور ڈکیتی کی وارداتیں بھی رپورٹ ہوئی ہیں۔ عام طور پر جب کوئی بڑے گینگ پولیس کے ہاتھ چڑھ جائیں تو بھی ایک عارضی سکون کی کیفیت ہوتی ہے۔ لیکن جلد ہی وہ خلا بھی پر ہو جاتا ہے۔‘

سی سی پی او لاہور کے مطابق اس سال میں اب تک دو ہزار سے زائد گینگ گرفتار ہو چکے ہیں۔ (فوٹو: نیڈ پکس)

ان کا کہنا تھا کہ سال کے کچھ مہینوں میں جرائم میں کمی ہونا کوئی انہونی بات نہیں ہے۔
 تاہم سی سی پی او لاہور بلال صدیق کمیانہ کہتے ہیں کہ پولیس میں دن بدن بہتری آ رہی ہے اور اعدادوشمار کو سامنے رکھ کر ہی کوئی رائے قائم کرتے ہیں۔
’اس سال میں اب تک ہم دو ہزار سے زائد گینگ گرفتار کر چکے ہیں۔ جبکہ ہارڈ کور کرمنلز جن میں چور اور ڈکیت آتے ہیں چاہے وہ انفرادی ہوں یا گینگز کا حصہ وہ چار ہزار سے زائد ہیں جو پکڑے جا چکے ہیں۔ تو اس کا اثر تو شہر کے کرائم ریٹ پر پڑے گا ہی۔ لیکن جیسے جیسے پولیس کے وسائل میں اضافہ ہو رہا ہے اور ٹیکنالوجی پر انحصار ہو رہا ہے تو اس کے ثمرات بھی آئیں گے۔‘
لاہور پولیس کے دستیاب اعداوشمار کے مطابق سال 2024 میں اب تک تین ارب 18 کروڑ روپے سے زائد کی ریکوری کی گئی ہے اور لوگوں کو ان کی لوٹی ہوئی دولت اور اسباب واپس کروائے گئے ہیں۔

شیئر: