پنجاب میں بجلی چوروں کے خلاف کارروائی، سیاسی مخالفین نشانے پر؟
پنجاب میں بجلی چوروں کے خلاف کارروائی، سیاسی مخالفین نشانے پر؟
بدھ 13 نومبر 2024 5:33
ادیب یوسفزئی - اردو نیوز، لاہور
زرتاج گل نے بتایا کہ ان کے علاقے میں بجلی کے میٹر کی چیکنگ کی آڑ میں لوگوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
حکومت پنجاب کی ہدایت پر پنجاب پولیس کی جانب سے صوبے بھر میں بجلی چوروں کے خلاف کریک ڈاؤن جاری ہے جس کے دوران نہ صرف عام بجلی کے نادہندگان کے خلاف کارروائی ہو رہی بلکہ ممبران اسمبلی کے خلاف بھی مقدمات درج کیے گئے ہیں۔
جاری مہم کے دوران مبینہ طور پر بجلی چوری میں ملوث 56 ہزار 322 افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے جبکہ بجلی چوری کے 96 ہزار 722 مقدمات بھی درج کیے گئے ہیں۔ تاہم اپوزیشن کی جماعت تحریک انصاف الزام لگا رہی ہے کہ پنجاب پولیس اس مہم کو سیاسی انتقام کے لیے استعمال کر رہی ہے۔
مہم کے دوران جن دو اراکین قومی اسمبلی پر مقدمات درج کیے گئے ہیں ان کا تعلق پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے ہے۔
'میٹر میں سوراخ کر کے ڈسک سے روکا گیا تھا'
پنجاب پولیس کی جانب سے پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی علی افضل ساہی کے خلاف بجلی چوری کا مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ وہ گذشتہ عام انتخابات میں این اے 95 فیصل آباد سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔
ان کے خلاف تھانہ ساہیانوالہ میں فیصل آباد الیکٹرک سپلائی کمپنی (فیسکو) کی ٹیم کی درخواست پر دفعہ 462 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔
ایف آئی آر کے متن کے مطابق میٹر کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی اطلاع پر فیسکو ملازم چیکنگ کے لیے موقع پر پہنچا تو علی افضل ساہی کی جانب سے مزاحمت کرتے ہوئے اسے میٹر کی چیکنگ سے روکا گیا۔ ایف آئی آر میں بتایا گیا ہے کہ علی افضل ساہی نے گالم گلوچ بھی کی۔ پولیس نے ایس ڈی او کی درخواست پر کار سرکار میں مداخلت اور بجلی چوری کے دفعات کے تحت 4 نومبر 2024 کو مقدمہ درج کیا۔
اس کے دو روز بعد سرگودھا میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ممبر قومی اسمبلی ملک شفقت عباس پر بھی بجلی چوری کا مقدمہ درج کیا گیا۔ ملک شفقت عباس این اے 84 سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے ہیں۔ ان کے خلاف بھی فیسکو کے سب ڈویژنل آفیسر(ایس ڈی او) ولید احمد عتیق کی مدعیت میں دفعہ 462 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔ ایف آئی آر کے متن کے مطابق ایس ڈی او نے ٹاسک فورس کی ٹیم کے ہمرا چک 35 شمالی میں ملک شفقت عباس کی رہائش گاہ پر چھاپہ مارا۔
ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ ’صارف نے میٹر میں سوراخ کر کے ایک ڈسک کی مدد سے روکا تھا۔ ڈسک پر نشان موجود تھے جو کہ بجلی چوری کے زمرے میں آتا ہے۔ لہٰذا صارف کا میٹر بطور ثبوت مزید کارروائی کے لیے اتار لیا گیا ہے۔‘
’میں مریکہ سے ہاتھا پائی کیسے کر سکتا ہوں؟‘
ممبران اسمبلی کے خلاف درج مقدمات کے حوالے موقف کے لیے ایس ڈی اوز فیسکو سے رابط کرنے کی کئی بار کوشش کی گئی تاہم انہوں نے نہ کال اٹینڈ کی اور نہ ہی مسیجز کے جوابات دیے۔
علی افضل ساہی نے اردو نیوز کو بتایا کہ انہیں اس ’مضحکہ خیز‘ ایف آئی آر کا اب علم ہوا ہے۔
’ایف آئی آر میں بتایا گیا ہے کہ میں نے مبینہ طور پر فیسکو ملازمین کو گالیاں دیں اور انہیں میٹر چیک کرنے نہیں دیا۔ یہ کتنی مضحکہ خیز بات ہے کہ میں گذشتہ کئی ماہ سے امریکہ میں ہوں تو میں کیسے امریکہ میں بیٹھ کر کسی کے ساتھ ہاتھا پائی کر سکتا ہوں یا گالیاں دے سکتا ہوں؟‘
علی افضل ساہی نے بتایا کہ جس میٹر کو بنیاد بنا کر ان کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے وہ میٹر ان کے نام پر ہی نہیں ہے۔
’جس میٹر کا حوالہ ایف آئی آر میں دیا گیا ہے وہ تو میرے نام پر نہیں ہے اور نہ ہی میرا اس سے کوئی سروکار ہے تو ان کو کیسے معلوم ہوا کہ میں اس میٹر کو استعمال کر رہا ہوں اور وہ بھی امریکہ میں بیٹھ کر؟‘
علی ساہی کے مطابق ایف آئی آر سیاسی انتقام کی کوشش ہے۔
’دس گاڑیوں میں لوگ آئے میٹر اتار کر لے گئے‘
رکن قومی اسمبلی ملک شفقت عباس نے اردو نیوز کو بتایا کہ جس ڈیرے سے میٹر اتار کر لے گئے ان کی وہاں گذشتہ پانچ سال سے رہائش ہی نہیں ہے۔
’جہاں سے میٹر اتارا گیا ہے وہاں میرے بھائی، کزنز اور چچا رہتے ہیں۔ یہ تقریباً دس گاڑیوں میں آئے تھے۔ ان کے ساتھ ایک بندہ واپڈا سے تھا جس کا نام شاہد تھا۔ آتے ہی یہ ڈیرے میں سرچ کرنے لگے۔ جبکہ تین بندے میٹر کے پاس کھڑے کر دیے جو میٹر ٹیمپر کر رہے تھے۔‘
ان کے مطابق میٹر کے ساتھ چھیڑ خوانی کرنے کے بعد انہوں نے دو میٹر اتار لیے۔
’میرے دو میٹرز اتار کر لے گئے لیکن ایف آئی آر میں ایک کا ذکر کیا گیا ہے۔ جو میٹر اتارا گیا ہے اس پر واجب الادا بلز بھی نہیں ہیں اور وہ میرے چچا کے استعمال میں تھا۔‘
انہوں نے اس کارروائی کو سیاسی انتقام قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’مجھے تو پوری کارروائی سیاسی لگ رہی ہے۔ مسلم لیگ ن استعمال ہو رہی ہے۔ یہ صرف پی ٹی آئی کو دبانا چاہتے ہیں۔ میں نے ایس ڈی او کو کہا ہے کہ آپ قرآن پاک پر حلف دے دیں کہ میں بجلی چوری کر رہا تھا پھر مجھے ایک کروڑ جرمانہ کریں۔‘
چند دن قبل قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے اجلاس میں بھی بجلی چوری اور اس معاملے میں پولیس کے اختیارات زیر بحث آئے۔ اجلاس میں رکن قومی اسمبلی اور چئیرمین سنی اتحاد کونسل صاحبزادہ حامد رضا نے بتایا کہ پنجاب میں 9 ارکان اسمبلی کے خلاف بجلی چوری کے مقدمات درج ہیں۔
زرتاج گل نے بتایا کہ ان کے علاقے میں بجلی کے میٹر کی چیکنگ کی آڑ میں لوگوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
وزارت پاور ڈویژن کی جانب سے اجلاس کو بتایا گیا تھا کہ اس وقت 1.8 ٹریلین روپے کی ریکوری نادہندگان سے کرنی ہے جو کہ نہیں ہو پارہی۔
ایڈیشنل سیکرٹری پاور ڈویژن نے بتایا تھا ’ہمارے پاس انفورسمنٹ کا نظام نہیں ہے۔ اس لیے جب تک اختیارات نہیں ملتے ریکوری نہیں ہو سکتی۔‘
اس پر چئیرمین کمیٹی خرم نواز نے ریمارکس دیے تھے کہ آپ چھوٹے لوگوں کو اٹھا لیتے ہیں۔ مگر کسی بڑے کو گرفتار نہیں کرتے۔