Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا وزیراعلٰی خیبر پختونخوا کا آبائی ضلع ’نوگو ایریا‘ بن گیا ہے؟ 

ڈی آئی خان نہ صرف وزیراعلیٰ بلکہ گورنر کا بھی آبائی ضلع ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کے جنوبی ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں سکیورٹی کے حالات بہتر ہونے کے بجائے دن بہ دن خراب ہوتے جا رہے ہیں۔
ڈیرہ اسماعیل خان نہ صرف وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور بلکہ گورنر فیصل کریم کنڈی، جمیعت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان اور آئی جی کے پی اختر حیات خان کا بھی آبائی ضلع ہے۔
خیبرپختونخوا کے قبائلی اور ضم اضلاع میں امن و امان کی غیر یقینی صورتحال تو ہے مگر ڈیرہ اسماعیل خان میں سکیورٹی کے مجموعی حالات انتہائی مخدوش ہیں۔ آئے روز پولیس اور سکیورٹی فورسز پر حملوں کے واقعات پیش آتے ہیں جبکہ ٹارگٹ کلنگ اور اغوا کے واقعات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
پولیس کے علاوہ سرکاری افسران اور ملازمین کو اغوا کرنے کا سلسلہ بھی شروع ہو چکا ہے۔ ڈی آئی خان میں شدت پسندوں کے کھلے عام گشت کے باعث کچھ علاقوں میں پولیس کی نقل و حرکت بھی محدود رکھی گئی ہے۔
ڈیرہ اسماعیل خان میں دہشت گردی میں اضافے کی وجہ
ڈی آئی خان کے مشرق میں جنوبی وزیرستان، شمال میں ضلع ڈیرہ غازی خان، جنوب میں ضلع موسیٰ خیل اور مغرب میں ضلع ژوب کا پہاڑی سلسلہ واقع ہے۔ سرحدی علاقوں کے قریب ہونے کے کی وجہ سے یہ ضلع دہشت گردوں کا ٹھکانہ بن گیا۔
مقامی پولیس کے مطابق ڈیرہ اسماعیل خان میں اس وقت 10 سے زائد دہشت گردوں کے گروپ فعال ہیں جن میں کالعدم ٹی ٹی پی، گنڈا پور گروپ، لکی مروت اور بٹنی گروپ سرفہرست ہیں۔ ماضی میں یہ علاقہ افغان اور ازبک شدت پسندوں کا مسکن بھی بنا رہا تھا۔
ڈی آئی خان میں سرکاری ملازمین کی غیرضروری نقل و حرکت پر پابندی 
ضلع ڈی آئی خان میں حالات کی سنگینی کو مدنظر رکھتے ہوئے ضلعی انتظامیہ نے تمام سرکاری افسران اور ملازمین کو گھروں پر رہنے کی ہدایت کی ہے۔

ڈی آئی خان میں پولیس و سکیورٹی فورسز پر حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

ڈپٹی کمشنر نے اعلامیے کے ذریعے سرکاری ملازمین کو خبردار کیا ہے کہ کسی بھی سرکاری یا ذاتی کام کے لیے حساس علاقوں میں جانے سے گریز کریں۔ ضلعی انتظامیہ نے ایمرجنسی صورتحال کے لیے ہیلپ لائن بھی جاری کر دی ہے۔
ڈیرہ اسماعیل خان پر مسلح قوتوں کا قبضہ 
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا تعلق بھی ڈیرہ اسماعیل خان سے ہے۔ انہوں نے میڈیا سے بات چیت میں ڈیرہ اسماعیل خان کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’اس علاقے میں مسلح قوتوں کا قبضہ ہے۔ حالات کی سنگینی کا اندازہ اس سے لگائیں کہ کچھ علاقوں میں آج سکولوں اور کالجوں میں پاکستان کا ترانہ نہیں پڑھا جاسکتا، پاکستان کا جھنڈا نہیں لہرایا جا سکتا۔‘
مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ شہر کی فضا میں اتنا خوف ہے کہ دن کے وقت بھی لوگ باہر نکلنے سے خوفزدہ ہیں۔
شام کے بعد حکومت کی رٹ ختم ہوجاتی ہے
گورنر کے پی فیصل کریم کنڈی اپنے آبائی ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں حالات کی خرابی کی وجہ صوبائی حکومت کو قرار دیتے آئے ہیں۔ انہوں نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ضلع میں دہشت گرد کھلے عام گشت کرتے ہیں، عصر کے بعد کوئی باہر نہیں نکل سکتا۔
فیصل کریم کنڈی کا کہنا تھا کہ وزیراعلٰی علی امین گنڈا پور کا اپنا حلقہ کولاچی ہے جہاں حالات سب سے زیادہ خراب ہیں، ٹانک کے بعد اب ڈی آئی خان میں حکومت کی رٹ ختم ہوتی نظر آرہی ہے۔
گورنر کا کہنا تھا کہ سکیورٹی خدشات کے باعث سرکاری افسران نے سرکاری گاڑیوں میں سفر کرنا چھوڑ دیا ہے۔
کیا ڈیرہ اسماعیل خان نو گو ایریا بن گیا ہے؟ 
خیبرپختونخوا کے سینیئر صحافی صفی اللہ نے اردو نیوز کو بتایا کہ ڈی آئی خان کے حالات اچانک خراب نہیں ہوئے بلکہ اس کے پیچھے کئی عوامل ہیں جو وقت کے ساتھ بڑھتے رہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ علاقہ گڈ اور بیڈ طالبان کی نرسری بنایا گیا تھا جہاں بارڈ کے اس پار سے بھی عسکریت پسند یہاں آباد ہوئے تھے۔

ضلعی انتظامیہ نے سرکاری افسران اور ملازمین کو گھر رہنے کی ہدایت کی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

صفی اللہ کے مطابق گزشتہ حکومت میں ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کے بعد موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے متعدد گروپوں نے افغانستان سے واپسی کی اور ڈی آئی خان سمیت لکی مروت اور بنوں کو اپنا ٹھکانہ بنایا۔
’یہ مسلح افراد ایک عرصے تک خاموش تھے، لوگوں میں گھل مل گئے تھے لیکن اب جب دوبارہ بدامنی کی لہر اٹھی ہے تو یہ دوبارہ سر اٹھارہے ہیں۔‘ 
ان کا کہنا تھا کہ صوبے کے تین بڑے عہدیداروں کا تعلق ڈی آئی خان سے ہے یعنی چیف ایگزیگٹیو سے لے کر وفاقی نمائندے اور پولیس کے سربراہ کا تعلق بھی اسی متاثرہ علاقے سے ہے۔
صحافی صفی اللہ نے بتایا کہ حکومتی اداروں میں روابط کا فقدان اور سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے ڈی آئی خان کے حالات مزید بگڑ گئے ہیں۔
’عوام کو مید تھی کہ وزیراعلٰی اپنے ضلع کے حالات بہتر بنائیں گے مگر حالات برعکس نظر آرہے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ڈی آئی خان کے حالات کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا اور اب یہ حالات اتنی جلدی سے ٹھیک نہیں ہوں گے تاہم کسی بھی اقدام سے پہلے عوام کو اعتماد میں لینا پڑے گا۔
ڈی آئی خان کے حالات کا ذمہ دارکون ہے؟ 
صوبہ خیبرپختونخوا کے سینیئر صحافی شمیم شاہد نے موقف اپنایا کہ ڈی آئی خان کے حالات ایک سوچی سمجھی سازش ہے، ایک طرف امن و امان کی خراب صورتحال ہے تو دوسری جانب سیاسی محاذ کو گرم رکھنے کے لیے وزیراعلٰی کے حلقے سے گورنر کو منتخب کیا گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ حکومت اپنے مؤقف میں واضح نہیں ہے اور وہ کھل کر دہشت گردوں کے خلاف اعلان جنگ بھی نہیں کر رہی ہے جبکہ گورنر سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لیے حالات کا فائدہ اٹھاکر صوبائی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
شمیم شاہد کے مطابق حکومت کی رٹ قائم کرنے کے لیے تمام ریاستی اداروں کو ایک پیچ پر آنا ہوگا اور یک مؤقف اپنانا پڑے گا۔ 
ان کا مزید کہنا تھا کہ چیف جسٹس آف پاکستان قاضی یحییٰ آفریدی ضلع ٹانک میں پیدا ہوئے تھے اور بچپن ڈی آئی خان میں گزارا، اسی لیے امید ہے کہ یہاں کے حالات کو سازگار بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں گے۔ 

ڈی آئی خان افغان اور ازبک شدت پسندوں کا مسکن بھی رہ چکا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

صوبائی حکومت کا مؤقف 
خیبرپختونخوا کے صوبائی وزیر قانون آفتاب عالم کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومت شرپسند عناصر کے خاتمے کے لیے پرعزم ہے جبکہ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا مشترکہ آپریشن جاری ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ڈی آئی خان سمیت لکی مروت اور بنوں کے اضلاع انتہائی حساس ہیں، اسی لیے پولیس کی نفری میں اضافے کی منظوری دے دی ہے۔ وزیر قانون کے مطابق انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں میں تیزی لانے کے لیے جدید اسلحہ اور سہولیات فراہم کر کے سی ٹی ڈی کی استعداد کو بڑھایا گیا ہے۔
واضح رہے کہ رواں سال دہشتگردی کی وجہ سے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان سب سے زیادہ متاثر رہا جہاں‌ سکیورٹی فورسز اور پولیس کے 74 اہلکار ہلاک ہو چکے ہیں۔

شیئر: