کیا حکومت قومی ایئرلائن پی آئی اے کو واقعی فروخت نہیں کرنا چاہتی؟
کیا حکومت قومی ایئرلائن پی آئی اے کو واقعی فروخت نہیں کرنا چاہتی؟
منگل 12 نومبر 2024 5:19
خرم شہزاد، اردو نیوز۔ اسلام آباد
فواد حسن فواد نے کہا کہ ’شہباز شریف کبھی نجکاری کے حامی نہیں رہے۔‘ (فوٹو: روئٹرز)
حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کے سابق وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل اور سابق وزیراعظم نواز شریف کے پرنسپل سیکریٹری فواد حسن فواد نے دعوٰی کیا ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف کی حکومت پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن (پی آئی اے) کی نجکاری کے عمل کے باوجود اس کو بیچنا نہیں چاہتی۔
پاکستان کے ایک نجی ٹی وی کے پروگرام میں ان دونوں سابق وزرا، جو مسلم لیگی قیادت کے قریب رہے ہیں، نے گذشتہ دنوں پی آئی اے کی ناکام نجکاری کا ذمہ دار حکومت کی فیصلہ سازی اور رضامندی کے فقدان کو قرار دیا ہے۔
مفتاح اسماعیل، جو اس وقت عوام پاکستان پارٹی کے سیکریٹری جنرل ہیں، نے براہ راست وزیراعظم شہباز شریف اور نائب وزیراعظم اسحاق ڈار پر الزام لگاتے ہوئے کہا کہ یہ دونوں شخصیات نجکاری کے لیے سنجیدہ نہیں اور اب تک کسی ایک بھی ادارے کی نجکاری میں کامیاب نہیں ہو سکے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت نے جان بوجھ کر پی آئی اے کی خریداری میں دلچسپی رکھنے والے کاروباری اداروں کی کوئی بات نہیں مانی تاکہ یہ اس عمل سے علیحدہ ہو جائیں کیوںکہ نہ تو شہباز شریف اور نہ ہی اسحاق ڈار اس نجکاری کے خواہاں تھے۔
مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ اسی طرز عمل کی وجہ سے ایئرلائن کاروبار کا تجربہ رکھنے والے دو بڑے گروپ ایئر عریبیہ اور پگاسس ایئرلائن اس عمل سے الگ ہو گئے۔
سابق نگراں وزیر برائے نجکاری اور مسلم لیگ نواز کے سربراہ نواز شریف سے قریبی تعلق رکھنے والے فواد حسن فواد نے بھی مفتاح اسماعیل کی بات کی تائید کی۔
انہوں نے کہا کہ ’شہباز شریف کبھی بھی نجکاری کے حامی نہیں رہے اور وہ ہمیشہ سے چاہتے ہیں کہ حکومتی ادارے لوگوں کے لیے کام کریں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’یہ حیرت انگیز بات ہے کہ کابینہ کی نجکاری کمیٹی، جس کی سربراہی وزیر خارجہ (اسحاق ڈار) کے پاس ہے، نے ایک بولی دہندہ کے ساتھ نجکاری کی منظوری دی اور کہا کہ اسی بڈر کے ساتھ بولی کا عمل آگے بڑھایا جائے، اس سے پاکستان میں نجکاری کے عمل کو بڑا نقصان پہنچا ہے۔‘
فواد حسن فواد نے کہا کہ ’حکومت کی پی آئی اے کی نجکاری میں غیر سنجیدگی ایک اشتہار سے جھلک رہی ہے جس میں پی آئی اے کے چیف ایگزیکٹو آفیسر کے لیے درخواستیں طلب کی گئی ہیں۔‘
’اگر حکومت نے پی آئی اے کا نیا سی ای او لگانا ہے تو پھر نجکاری کے عمل کی کیا ضرورت تھی۔ اگر پی آئی اے فروخت ہو جاتی تو اس کو خریدنے والا نجی ادارہ خود اپنی مرضی سے کوئی تجربہ کار سی ای او لگاتا۔‘
پاکستان کے سرمایہ کاری بورڈ کے سابق سربراہ ہارون شریف بھی ان خیالات سے اتفاق کرتے ہیں۔
انہوں نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’اسحاق ڈار اس لیے نجکاری نہیں چاہتے کیونکہ وہ اپنا کنٹرول چاہتے ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ جو کچھ بھی ہو ان کی مرضی سے ہو۔‘
’اتحادی حکومت نجکاری کے عمل کو تسلیم نہیں کرتی‘
لیکن نجکاری کا یہ عمل ناکام ہونے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اتحادی حکومت اس عمل کو تسلیم ہی نہیں کرتی۔ حکومت کی بڑی اتحادی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے تو اداروں کو نیشنلائز کیا تھا، پھر انہوں نے پی آئی اے میں اتنے سارے لوگ بھرتی کیے ہوئےہیں۔ اس لیے وہ کہتے ہیں کہ پی آئی اے کی نجکاری کی ایک ’پولیٹیکل کاسٹ‘ ہے اور اس لیے اس عمل کو سیاسی حمایت حاصل نہیں ہے۔‘
’نجکاری کے لیے حکومت کی کوئی سٹریٹیجی نہیں‘
ہارون شریف کے مطابق حکومت کی اس عمل کو کامیاب بنانے کے لیے کوئی حکمت عملی نہیں ہے۔
’ایک طرف وہ کہتے ہیں کہ حکومت اب کاروبار نہیں کرے گی تو پھر دوسری حکومتوں سے گورنمنٹ ٹو گورنمنٹ (جی ٹو جی) معاہدے کیوں کر رہی ہے؟‘
انہیں مذاکرات کرنے نہیں آتے تھے، ان کی ترجیح نجکاری نہیں بلکہ حکومتی اتحاد بچانا اور اپنے عہدے بچانا تھا۔‘
انہوں نے کہا کہ نجکاری کی ناکامی کی تیسری بڑی وجہ یہ ہے کہ حکومت نے نجکاری کمیشن کو ایک خود مختار ادارے سے ایک وزارت بنا دیا ہے اور اس سے پیشہ ور ماہرین نکل گئے ہیں اور ان کی جگہ بیوروکریسی نے لے لی ہے جن کہ نہ تو اہلیت ہے اور نہ ہی اس کام میں زیادہ دلچسپی ہے کیونکہ ان کے اپنے مفادات ہیں۔
’آئی ایم ایف کا دباؤ پی آئی اے نجکاری کے لیے نہیں ٹیکس آمدن کے خسارے سے بچاو کے لیے‘
تاہم سسٹین ایبل پالیسی ڈیویلیپمنٹ انسٹی ٹیوٹ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر عابد سلہری کے مطابق پی آئی اے کی نجکاری میں حکومت کی عدم دلچسپی کا دعوٰی درست معلوم نہیں ہوتا کیونکہ حکومت پر اس کی فروخت کے لیے دباؤ ہے۔
انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ نواز کے دور میں پہلے بھی نجکاری ہوئی ہے اور اب بھی آئی ایم ایف کا دباؤ انہیں نجکاری پر مجبور کررہا ہے۔
ڈاکٹر عابد سلہری کی بات کے جواب میں ہارون شریف کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کا دباؤ ضرور ہے لیکن وہ پی آئی اے کی نجکاری کے لیے نہیں ہے بلکہ صرف اس بات کا ہے کہ اس کو ہونے والے خسارے میں ٹیکس دہندگان کا ٹیکس شامل نہیں ہونا چاہیے اور ٹیکس آمدن پر اس خسارے کا اثر نہیں پڑنا چاہیے۔
’سرمایہ کاروں کے اعتماد کے لیے پہلے چھوٹے یونٹس فروخت کریں‘
ہارون شریف کے خیال میں حکومت اب چاہ کر بھی پی آئی اے کی فوری نجکاری نہیں کر سکتی کیونکہ ایک بولی کی ناکامی سے نجکاری کا پورا عمل دھڑام سے نیچے گر گیا ہے۔
’اب سرمایہ کاروں کا اعتماد تبھی بحال ہو گا جب حکومت بڑے اداروں کو چھوڑ کر تین چار چھوٹے یونٹس کی کامیاب نجکاری کرے گی۔ اور یہ تبھی ہو گا جب نجکاری کے عمل میں اپنا سیاسی اتحاد بچانے والے سیاستدان نہیں بلکہ پروفیشنل ماہرین فیصلے کریں گے۔‘
وفاقی حکومت کے ترجمان رانا احسان افضل نے اس معاملے پر حکومت کے موقف کے لیے رابطہ کرنے پر کہا کہ وہ اس پر جلد بات کریں گے۔