گجر خان میں دوستوں کے ہاتھوں دوست قتل، ’لاش کے ٹکڑے کر کے دفنا دیے‘
گجر خان میں دوستوں کے ہاتھوں دوست قتل، ’لاش کے ٹکڑے کر کے دفنا دیے‘
جمعرات 14 نومبر 2024 12:26
صالح سفیر عباسی -اردو نیوز
ملزمان نے محمد رشید کو قتل کرنے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ اُس کی لاش کے دو ٹکرے کر دیے (فوٹو: پکسابے)
یہ اپریل کی ایک خوبصورت شام تھی جب پنجاب کے ضلع گجرات میں سرائے عالمگیر کے رہائشی محمد رشید کو اپنے تین دوستوں کی جانب سے فون کال موصول ہوئی کہ ’آئیں آج آپ کو کلیام شریف (تحصیل گجر خان) لے کر جاتے ہیں جہاں دیگر دوستوں کے ساتھ کچھ یادگار لمحات گزاریں گے۔‘
محمد رشید نے دوستوں کے ساتھ پلان کی ہامی بھر لی اور اپنے گھر میں بیوی اور بچوں کو بتانے کے بعد جانے کی تیاریاں شروع کر دیں۔
کچھ ہی دیر میں محمد رشید کے دوست اُن کے گھر کے باہر پہنچ گئے اور وہ کار میں سوار ہو کر کلیام شریف کی طرف نکل پڑے۔
پولیس کے مطابق کلیام شریف پہنچنے پر محمد رشید کے دوستوں نے بتایا کہ اُن کے تین مزید دوست اس وقت قریبی قصبے تمبر رتیال ایک گھر میں موجود ہیں جہاں اُنہوں نے کھانے کا بھی انتظام کر لیا ہے تو سب وہیں چلتے ہیں۔
محمد رشید اپنے دوستوں کے ساتھ تمبر رتیال نامی قصبے میں پہنچ گئے جہاں ایک گھر میں اٗن کے دیگر دوستوں نے اُنہیں خوش آمدید کہا اور پھر تمام دوست ایک دوسرے کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف ہو گئے۔
ابھی کچھ لمحے ہی گزرے تھے کہ چھ دوستوں نے مل کر محمد رشید کو باندھ دیا اور اُن پر تشدد کرنے لگے۔ دوستوں کے ساتھ اپنی شام کو یادگار بنانے کے لیے آنے والے محمد رشید کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ یہ اُن کی زندگی کی آخری شام ثابت ہو گی۔
ملزمان نے محمد رشید کو گولیاں مار کر قتل کرنے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ اُس کی لاش کے دو ٹکڑے کر دیے اور پھر رات کے اندھیرے میں ان ٹکڑوں کر دو علیحدہ جگہوں پر دفنا دیا۔
قتل کے کیس کی تحقیقات کرنے والے تفتیشی افسر احمد یار نے اُردو نیوز کو بتایا کہ محمد رشید اور اُن کے تمام دوست منشیات کا کاروبار کرتے تھے جنہوں نے اس شک کی بنیاد پر انہیں قتل کیا کہ وہ مخبری کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ملزمان کا مقتول کے ساتھ لین دین کا بھی تنازع تھا۔
اُردو نیوز کے رابطہ کرنے پر مقتول محمد رشید کے بیٹے محمد عثمان نے اپنے والد کے قتل سے متعلق مزید معلومات فراہم کرتے ہوئے بتایا کہ ’میرے والد 13 اپریل کو اپنے دوستوں کے ساتھ کلیام شریف گئے تھے۔ جب میرا اُس رات اُن سے آخری بار رابطہ ہوا تو اُنہوں نے یہ کہا تھا آج بہت دیر ہو گئی ہے میں صبح واپس گھر آؤں گا۔‘
صبح دوبارہ رابطہ کرنے پر نمبر بند ملا تو اُنہوں نے محمد رشید کے دوستوں سے فون کال پر اپنے والد کی خیریت معلوم کی جس پر اُنہیں جواب ملا کہ محمد رشید کو گاڑی پر بٹھا دیا ہے وہ تھوڑی دیر تک پہنچ جائیں گے۔‘
مقتول کے بیٹے نے اُردو نیوز کو بتایا کہ ’جب ایک دن گزرنے کے بعد بھی میرے والد گھر نہیں پہنچے تو اُن کے دوستوں سے دوبارہ رابطہ کیا لیکن اس بار اُن کا جواب مختلف تھا کہ محمد رشید کو ایجنسی والے ساتھ لے گئے ہیں۔‘
بیانات بدلنے پر محمد عثمان کو شبہ ہونے لگا کہ کہیں اُن کے والد کو اُن کے دوستوں نے اغوا تو نہیں کر لیا۔ محمد عثمان بتاتے ہیں کہ ’ملزمان نے مجھے تسلیاں دینا شروع کر دیں کہ آپ کو پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہم اکٹھے مل کر آپ کے والد کو بچا لیں گے۔‘
محمد عثمان نے بتایا کہ ’جب میں نے اپنی طرف سے والد کی تلاش جاری رکھی تو انہوں نے مجھے دھمکیاں دینا شروع کر دیں کہ اگر پولیس کے پاس گئے تو اپنے نقصان کے ذمہ دار خود ہو گے۔‘
سرائے عالمگیر سے تعلق رکھنے والے شہری محمد رشید کی تلاش دو سے اڑھائی ماہ تک جاری رہی مگر اُن کے بیٹے یا خاندان کے کسی فرد کو کوئی سراغ نہ مل سکا۔
بالآخر مقتول کے بیٹے نے تھانہ مندرہ تحصیل گجر خان میں اپنے والد کے اغواء کی ایف آئی درج کروا دی جس میں محمد رشید کے دوستوں پر اُن کے اغوا کا الزام لگایا۔
کیس کے تفتیشی افسر احمد یار کے مطابق مقتول محمد رشید کو اُس کے دوستوں نے قتل کرنے کے بعد تمبر رتیال نامی قصبے میں دفنا دیا۔
اُنہوں نے بتایا کہ ’جب پولیس نے مقدمے کی پیروی میں تین ملزمان کو گرفتار کیا تو اُنہوں نے دورانِ تفتیش اپنے دوست محمد رشید کے قتل کا اعتراف کر لیا اور جرم میں شریک دیگر ملزمان کا بھی بتا دیا۔‘
کیس کے تفتیشی افسر کے مطابق شہری محمد رشید کے قتل میں ملوث تین ملزمان کو گرفتار کر لیا گیا ہے تاہم دیگر تین ملزمان قتل کے فوراً بعد بیرونِ ملک فرار ہو گئے تھے جنہیں انٹرپول کے ذریعے پاکستان لانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔