کوئٹہ کا مقتول مزدور جو خود قاتل تھا، ’لگتا تھا مارنے والے کا غصّہ ٹھنڈا نہیں ہو رہا‘
کوئٹہ کا مقتول مزدور جو خود قاتل تھا، ’لگتا تھا مارنے والے کا غصّہ ٹھنڈا نہیں ہو رہا‘
بدھ 13 نومبر 2024 6:16
زین الدین احمد -اردو نیوز، کوئٹہ
ریاض نے یہ انتہائی اقدام کیوں اٹھایا یہ کہانی بارہ سال پہلے شروع ہوئی (فوٹو: پکسابے)
رات کی سیاہی چہار سو پھیل گئی تھی، ہر طرف گہرا اندھیرا تھا، کوئٹہ کے علاقے سریاب روڈ کلی لانگو آباد کے بیشتر رہائشی گہری نیند سورہے تھے جب اچانک گولیوں کی تڑتڑاہٹ نے فضا میں چھائی خاموشی توڑ دی۔
لوگ گھروں سے باہر نکلے تو پتا چلا کہ کسی کا قتل ہوا ہے۔ خون میں لت پت لاش کی شناخت عطا اللہ لانگو کے نام سے ہوئی جو اسی محلے کا رہائشی تھا لیکن مارنے والا کون تھا کچھ پتہ نہیں چلا۔
پولیس موقع پر پہنچی تو انہیں یہ قتل عام وارادتوں سے الگ اور زیادہ بھیانک معلوم ہوا۔ مقتول کو سر سے پاؤں تک 25 سے زائد گولیاں ماری گئی تھیں۔
پولیس کے سیریس کرائم انویسٹی گیشن ونگ ( ایس سی آئی ڈبلیو) کے سب انسپکٹر نور اللہ کے مطابق ایسا لگ رہا تھا کہ مارنے والے کا غصہ ہی ٹھنڈا نہیں ہو رہا تھا اوراس نے کلاشنکوف کا پورا میگزین خالی کرنے کے بعد پستول سے بھی گولیاں ماریں۔
انہوں نے بتایا کہ پولیس نے مقتول کے لواحقین، گلی محلے کے لوگوں اور سب سے پوچھ گچھ کی مگر قتل کی کوئی وجہ پتہ چل رہی تھی اور نہ ہی قاتل کے بارے میں کوئی جانتا تھا۔
مقتول کے کزن محمد آصف نے اردو نیوز کو بتایا کہ عطاء اللہ بہنوئی کے زیر تعمیر گھر میں مزدور کی حیثیت سے کام کررہا تھا اور اکثر رات دیر سے گھر آتا تھا۔
اس دن بھی وہ رات کو دیر سے گھر آیا اسے معدے میں تکلیف تھی تو دوائی لینے باہر نکلا۔ واپس آتے ہوئے گھر کے قریب ایک خالی میدان میں انہیں نشانہ بنایا گیا۔
اہلخانہ نے پولیس کو بتایا کہ ان کی کسی سے کوئی دشمنی نہیں اس لیے مقدمہ بھی تھانہ کیچی بیگ میں نامعلوم افراد کے خلاف درج کرایا گیا۔
اس اندھے قتل کا سراغ لگانے کی ذمہ داری سیریس کرائم انویسٹی گیشن ونگ کو دی گئی جس نے مختلف پہلوؤں پر تفتیش شروع کی۔
تفتیشی افسر سب انسپکٹر نور اللہ نے بتایا کہ کوئی دوسرا سراغ نہ ملا تو پولیس نے مقتول کے ماضی کے بارے میں چھان بین کی جس میں پتہ چلا کہ وہ ماضی میں ایک سنگین جرم میں جیل جاچکا ہے۔
پولیس نے بھی تفتیش کا رخ اسی جانب موڑ دیا اور شک کی سوئی ایک ہی شخص کے گرد گھومنے لگی۔
تفتیشی افسر کے مطابق پولیس کا شک صحیح نکلا۔ عطاء اللہ کے قتل کے تقریباً دو ماہ بعد سات نومبر 2023 کو ریاض محمد نامی شخص کو گرفتار کیا گیا تو اس نے فوری اعتراف جرم بھی کرلیا اور کہا کہ اس نے بارہ سال کے مسلسل انتظار کے بعد آخر کار عطا اللہ سے اپنا بدلہ لے لیا۔
ریاض اور عطاء اللہ کے خاندان کبھی ایک دوسرے کے بہت قریب تھے لیکن ریاض نے یہ انتہائی اقدام کیوں اٹھایا یہ کہانی بارہ سال پہلے شروع ہوئی۔
بیٹے کے اغوا نے بیٹی کی منگنی کی خوشی برباد کر دی
یہ جولائی 2012 میں گرمیوں کی ایک شام تھی، سریاب روڈ میر کالونی کے رہائشی مال مویشی کے بیوپاری حاجی ریاض کے گھر میں بیٹی کی منگنی کی خوشیاں منائی جارہی تھیں لیکن اس دوران ایک بری خبر نے سب خوشیاں ماند کردیں۔
حاجی ریاض کا گیارہ سالہ بیٹا چوتھی جماعت کا طالب علم محمد وقاص لاپتہ ہوگیا۔ سب گھر والوں نے بہت تلاش کیا لیکن وقاص کا کچھ پتہ نہ چلا۔
چند گھنٹوں بعد ریاض کو اس کے موبائل پر ایک نامعلوم شخص کی جانب سے کال موصول ہوئی کہ ’لڑکا ہمارے پاس ہے رقم کا بندوبست کرو۔ بعد میں بتائیں گے کہ کتنی رقم کا بندوبست کرنا ہے۔‘
مسلسل چار بار تاوان کے لیے کالیں موصول ہوئیں تو حاجی ریاض نے سریاب پولیس تھانے میں نامعلوم افراد کے خلاف بیٹے کے اغوا کا مقدمہ درج کرا دیا۔
حاجی ریاض کی جانب سے شک کے اظہار پر پولیس نے ان کے جاننے والے عطاء اللہ کو گرفتار کرلیا۔
عطاء اللہ کے کزن محمد آصف نے بتایا کہ عطاء اللہ اور ریاض محمد کے خاندانوں کا آپس میں پرانا تعلق تھا۔ یہ کئی دہائی پہلے لورالائی میں ایک ہی محلے میں رہتے تھے اس کے بعد دونوں خاندان کوئٹہ منتقل ہوگئے۔ کوئٹہ میں اگرچہ یہ الگ الگ رہتے تھے مگر ان کے درمیان اچھا تعلق قائم تھا۔
قرض کی عدم ادائیگی نے دوستوں کو دشمن بنا دیا
حاجی ریاض محمد مال مویشی کی خرید و فروخت کا کام کرتے ہیں، جبکہ عطاء اللہ کے والد ڈیری فارم چلاتے تھے۔ حاجی ریاض انہیں نہ صرف مال مویشی بلکہ چارہ بھی فروخت کرتا تھا۔
والد کے انتقال کے بعد عطاء اللہ اور ان کے بڑے بھائی قرضوں میں ڈوب گئے۔ حاجی ریاض کا بھی ان پر قرض تھا۔
محمد آصف کے مطابق حاجی ریاض اپنا قرضہ مانگنے گیا تو عطاء اللہ کے ساتھ بحث و تکرار ہوگئی۔
بات اتنی بڑی نہیں تھی لیکن حاجی ریاض کو عطاء اللہ پر ہی شک گزرا اسی لیے پولیس نے اسے گرفتار کرلیا اور کئی ہفتوں تک اسے تھانے میں قید رکھ کر پوچھ گچھ بھی کی مگر پولیس کچھ پتہ نہیں چلا سکی اس لیے عطاء اللہ کو رہا کردیا گیا۔
عطاء اللہ تو رہا ہوگیا مگر گیارہ سالہ وقاص کا کوئی پتہ نہیں چل سکا۔ ریاض محمد نے اردو نیوز کو بتایا کہ اس نے پاگلوں کی طرح اپنے بیٹے کو تلاش کیا ۔ ہر در کھٹکٹھایا ، پولیس افسران، صوبائی وزراء سب کے پاس گیا لیکن کسی نے کوئی مدد نہ کی۔
کپڑوں پر لگے درزی کے لیبل اور گھسی ہوئی چپل سے مقتول کی شناخت
وقاص کے اغوا کی تفتیش سے منسلک رہنے والے پولیس انسپکٹر عبدالرؤف کو ملازمت سے ریٹائرمنٹ اور واقعے کو بارہ سال گزرنے کے بعد بھی حاجی ریاض کی بیٹے کی بحفاظت بازیابی کے لیےکوششیں یاد ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ باپ نے بیٹے کی تلاش کے لیے بہت کوششیں کیں۔ پیر فقیر بھی ان سے یہ کہہ کر بھاری رقم بٹورتے رہے کہ آپ کا بیٹا زندہ ہے اور فلاں پہاڑ ی پر ہے لیکن تمام تر بھاگ دوڑ کے بعد بھی حاجی ریاض اپنے بیٹے کو زندہ نہ دیکھ سکے۔
انہوں نے بتایا کہ تقریباً سوا سال بعد حاجی ریاض کو بیٹے کی بازیابی کے بدلے تاوان ادا کرنے کی کال موصول ہوئی تو سی آئی اے پولیس نے کال ٹریس کرکے عطاء اللہ کو گرفتار کرلیا۔
تاہم حاجی ریاض کے بقول یہ گرفتاری ان کی مسلسل منتوں کے بعد ایک اعلیٰ سرکاری شخصیت کی مداخلت کے نتیجے میں عمل میں لائی گئی۔
’اغوا کار مجھے بار بار کال کرتے رہے کہ ایک کروڑ روپے دو، اتنے لاکھ روپے دو۔ میں پولیس کے پاس جاتا رہا کہ مجھے یہ کالیں موصول ہورہی ہیں لیکن انہوں نے کوئی خاص توجہ نہیں دی۔
حاجی ریاض کے مطابق ایک اعلیٰ سرکاری افسر کے دباؤ پر عطاء اللہ گرفتار ہوا اور اس سے صحیح ریمانڈ لیا گیا تو اس نے آخر کار جرم قبول کرلیا اور اپنے تین دیگر ساتھیوں کی نشاندہی بھی کی۔
اس طرح ملزمان کی نشاندہی پر سوا سال بعد اکتوبر 2023 میں سریاب روڈ پر لنک بادینی پر ایک کاریز ( زیر زمین زرعی آبپاشی کے لیے کھودے گئے کنویں) سے لاش برآمد ہوئی۔
سابق تفتیشی افسر ریٹائرڈ پولیس انسپکٹر عبدالرؤف کے مطابق عطاء اللہ کے علاوہ تین دیگر ملزمان منظور، جمال اور ظہور بھی گرفتار ہوئے۔ ملزمان نے اعتراف جرم کیا کہ انہوں نے گیارہ سالہ ’وقاص کو اغوا کرکے سریاب روڈ پر لنک بادینی کے ایک مکان میں رکھا اور پھر قتل کرکے کاریز میں پھینک دیا۔‘
22 اکتوبر 2013 کے کوئٹہ کے روزنامہ آزادی کی رپورٹ میں سی آئی اے پولیس کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا تھا کہ ’ملزمان نے بچے کے ہاتھ پاؤں رسی سے جکڑ کر اور منہ پر پٹی باندھ کر اسے ساٹھ سے ستر فٹ گہرے کاریز میں زندہ پھینک دیا جہاں بچے نے کئی روز بعد دم توڑا۔‘
تاہم سابق انسپکٹر عبدالرؤف کا کہنا ہے کہ ملزمان نےا غوا کے ایک روز بعد ہی بچے کو کاریز (کنویں ) میں پھینک دیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ’مجھے آج بھی یاد ہے کہ جب مجسٹریٹ اور پولیس کی بھاری نفری کے ساتھ جائے وقوعہ پر پہنچیں۔ حاجی ریاض کو بیٹے کے کپڑے سینے والے درزی کے نام کا لیبل یاد تھا۔‘
’انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ان کا بیٹا ایک پاؤں زمین پر رگڑ کر چلتا ہے اس لیے اس کی ایک چپل گھسی ہوئی ہوگی ۔ جب پولیس کاریز کے نیچے اتری تو وہاں لاش کی بجائے صرف ہڈیوں کا ڈھانچہ ملا۔‘
ان کے مطابق ’سوا سال پرانی ہونے کی وجہ سے لاش کی شناخت ممکن نہیں تھی لیکن وہ باپ کی بتائی ہوئی نشانیوں پر پوری اتری۔ ہمی قمیض پر مطلوبہ درزی کا لیبل اور پلاسٹک کی چپل بھی ملی۔‘
پولیس درست کارروائی کرتی تو کوئی قتل نہ ہوتا
جب محمد وقاص کی لاش ملی تو اس دن محمد ریاض کے اہلخانہ اور قبیلے کے افراد نے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ بھی کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ پہلی مرتبہ گرفتار ہونے پر ملزم سے صحیح تفتیش کی جاتی تو وقاص زندہ ہوتا۔ انہوں نے پولیس کی ناقص تفتیش کو وقاص کی موت کا ذمہ دار قرار دیا۔
سابق انسپکٹر کے مطابق ملزمان کی گرفتاری کے بعد مقدمہ کوئٹہ کی مقامی عدالت میں چلا تو حاجی ریاض نے ملزمان کو سزا دلانے کے لیے بھی بہت بھاگ دوڑ کی۔ پولیس نے بھی ان کی ہر ممکن مدد کی۔
جائے وقوعہ سے ملنے والے شواہد، کال ڈیٹا اور دیگر ٹھوس ثبوت عدالت میں پیش کئے جس کی بناء پر عطاء اللہ کو سزائے موت جبکہ ان کے تین ساتھیوں کو عمر قید کی سزا سنائی گئی۔
’قاتل کے بری ہونے کے بعد خود بچے کا بدلہ لینے کا فیصلہ‘
لیکن جب تقریباً چھ سال بعد عطاء اللہ اور باقی ملزمان ہائی کورٹ سے بری ہوگئے تو حاجی عطاء اللہ کو بہت غصہ آیا اور وہ کہتے تھے کہ وہ ملزمان کو نہیں چھوڑیں گے۔
مقتول عطاء اللہ کے کزن محمد آصف کے مطابق اگرچہ عطاء اللہ عدالت سے بری ہوگیا تھا مگر بلوچی رسم و رواج کے تحت جب تک مقتول کے رشتہ دار معاف نہ کریں معافی نہیں ملتی۔ ’اس لیے ہم نے کئی بار کوشش بھی کی کہ قبائلی جرگے اور رسم و رواج کے تحت محمد ریاض کے ساتھ راضی نامہ کریں تاکہ عطاء اللہ کو معافی مل سکے مگر بچے کے والد انہیں کسی صورت معاف کرنے کو تیار نہیں تھے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اس بناء پر عطاء اللہ خوفزدہ بھی رہتا تھا اس لیے 2019 میں رہائی کے بعد وہ بیرون ملک چلا گیا جہاں وہ کئی سال رہا اور پھر واپس آگیا اور محنت مزدوری شروع کردی۔ وہ دیہاڑی پر کام کرتا تھا۔
محمد آصف کے مطابق عطاء اللہ نے غلط راستے کا انتخاب کیا اور اس کا انجام بھی بھگتنا پڑا۔
عطاء اللہ کے قتل کی تفتیش کرنے والے پولیس کے سیریس کرائم انویسٹی گیشن ونگ کے حکام کے مطابق حاجی ریاض نے اپنے اعترافی بیان میں کہا کہ ہائی کورٹ سے ملزمان کے بری ہونے کے بعد اس نے اپنے معصوم بیٹے کے قتل کا بدلہ خود لینے کا فیصلہ کیا اور ملزمان کی تاک میں لگ گیا۔
حاجی ریاض نے پولیس کو بتایا کہ ’اس دوران عطاء اللہ کبھی بیرون ملک اور کبھی کہاں چھپتا رہا مگر میں نے تلاش نہیں چھوڑی اور آخر کار 11 سال کے انتظار کے بعد 11 ستمبر 2023 کو عطاء اللہ کو قتل کرکے اپنے بیٹے کا قتل کا بدلہ لے لیا۔‘
قبائیلی جرگے میں صلح کے بعد ملزم ضمانت پر رہا
پولیس کے مطابق حاجی ریاض کو گرفتار کرکے جیل منتقل کردیا گیا ان کے خلاف عطاء اللہ کے قتل کا مقدمہ مقامی عدالت میں چل رہا ہے تاہم ان دنوں وہ ضمانت پر ہیں۔
مقتول کے کزن محمد آصف کے مطابق تقریباً آٹھ ماہ بعد عطاء اللہ کے لواحقین نے قبائلی جرگے کی درخواست پر ریاض احمد کو معاف کردیا اس طرح دونوں فریقین میں راضی ہوگیا جس کے بعد ریاض احمد کو ضمانت پر رہائی مل گئی۔