Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سکیورٹی خدشات: بلوچستان کے 10 اضلاع میں موبائل انٹرنیٹ بند، تاجر پریشان

متاثرہ اضلاع میں پی ٹی سی ایل کی لینڈ لائن انٹرنیٹ سروس کو متبادل کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
بلوچستان میں امن وامان کےخدشات کی وجہ سے دس سے زائد اضلاع میں موبائل فون انٹرنیٹ سروس بند کردی گئی ہے جس کی وجہ سے صارفین بالخصوص فری لانسرز، تاجروں اور طلبہ کو مشکلات کا سامنا ہے۔
گوادر، کیچ، آواران، خضدار، قلات، زیارت، ہرنائی، دکی، لورالائی، پشین، قلعہ سیف اللہ، ژوب اور موسیٰ خیل کے مقامی حکام نے تصدیق کی ہے کہ ان اضلاع میں کوئی وجہ بتائے بغیر اچانک موبائل انٹرنیٹ سروس مکمل طور پر بند کردی گئی ہے۔
خضدار میں چار روز سے ، گوادر اور کیچ میں دو دنوں سے، آواران میں جمعرات سے جبکہ باقی اضلاع میں بدھ سے تھری جی اور فور جی سروس مکمل بند ہے۔
کوئٹہ سمیت صوبے کے باقی ماندہ اضلاع میں صارفین کی جانب سے موبائل انٹرنیٹ کی سست روی کی شکایات سامنے آرہی ہیں۔
بلوچستان حکومت کے ترجمان شاہد رند، صوبائی محکمہ داخلہ ، پولیس اور لیویز کے اعلیٰ حکام نے رابطہ کرنے پر اس معاملے پر موقف دینے سے انکار کردیا۔
تاہم صوبائی حکومت کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ موبائل انٹرنیٹ سروس کی بندش کا فیصلہ صوبے میں جاری امن وامان کی خراب صورتحال کے پیش نظر کیا گیا ہے اور یہ پابندی غیر معینہ مدت تک رہے گی۔
جن اضلاع میں انٹرنیٹ سروس بند کی گئی ہے ان میں سے بیشتر اضلاع میں حالیہ دنوں میں دہشت گردی کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔
محکمہ داخلہ بلوچستان کے اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ ایک مہینے میں بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات میں 70 سے زائد افراد کی موت ہوچکی ہے۔

انٹرنیٹ کی بندش کی وجہ سے صارفین بالخصوص فری لانسرز، تاجروں اور طلبہ کو مشکلات کا سامنا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے دکی میں کوئلہ کے 20 کان کنوں کےقتل کے واقعہ کے بعد 12 اکتوبر کو کوئٹہ میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے صوبے کے کئی علاقوں میں موبائل انٹرنیٹ سروس بند کرنے کا عندیہ دیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے پورے بلوچستان میں تھری جی اور فورجی کی سروس فراہم کر رکھی ہے جس کا استعمال کرتے ہوئے دہشت گرد کمیونیکشن کررہے ہیں۔
وزیراعلیٰ نے بتایا تھا کہ حکومت صوبے میں موبائل انٹرنیٹ سروس کے حوالے سے نئی حکمت عملی بنا رہی ہے۔ انہوں نے اس حوالے سے صوبائی اسمبلی میں معاملہ پیش کرکے اتفاق رائے پیدا کرنے کا کہا تھا تاہم بلوچستان اسمبلی میں حکومت نے انٹرنیٹ کی بندش کے حالے سے کوئی منصوبہ اب تک پیش نہیں کیا۔
وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ ہم نے اتفاق رائے قائم کرنی ہے کہ ہم کہاں فورجی سروسز دے سکتے ہیں اور کہاں نہیں ۔ اس کے مثبت استعمال کی حوصلہ افزائی اور منفی استعمال کی حوصلہ شکنی کرنی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کا سب سے بڑا ٹول کمیونکیشن ہے۔ انٹیلی جنس ایجنسی کے پاس بھی سب سے بڑا ہتھیار کمیونکیشن ہی ہے جس کو وہ سنتے یا بلاک کرتی ہے لیکن ان سے یہ ٹول چھین لیا گیا ہے ۔ ہم نے اس بارے میں سوچنا ہے۔
بلوچستان میں موبائل فون انٹرنیٹ کی سروس کے بند ہونے کا یہ پہلا موقع نہیں۔ اس سے پہلے 2017  سے 2021 تک چار سالوں تک ایران سے ملحقہ بلوچستان کے ضلع کیچ، پنجگور،واشک، آواران اور قلات میں انٹرنیٹ سروس بند رہی۔
پنجگور میں گزشتہ دو سالوں سے تھری جی اور فور جی سروس جبکہ ڈیرہ بگٹی میں گذشتہ چھ ماہ سے بند ہے۔ 

 ژوب کے ایک تاجر عبداللہ مندوخیل نے بتایا کہ انٹرنیٹ بند ہونے کی وجہ سے ہمارے سودے منسوخ ہو رہے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

دوسری جانب کالعدم بلوچ مسلح تنظیمیں بھی گوادر، کیچ، آواران، قلات، مستونگ، بارکھان، ہرنائی اور دیگر اضلاع میں موبائل فون ٹاورز کو نشانہ بناتی رہی ہیں۔ بارکھان کے علاقے بغاؤ میں اگست کے آخری ہفتے میں تین موبائل ٹاور تباہ کیے جانے کے بعد سے موبائل فون سروس مکمل طور پر بند ہے۔
حکومت کی جانب سے موبائل انٹرنیٹ کی بندش کے اقدام سے صارفین کو مشکلات کا سامنا ہے۔ فری لانسرز اور تاجر کاروبار جبکہ طلبہ پڑھائی متاثر ہونے کی وجہ سے پریشان ہیں۔
فری لانسر جمیل احمد نے بتایا کہ فری لانسنگ سے صوبے کے ہزاروں نوجوان گھر بیٹھے کما رہے ہیں اگر انٹرنیٹ سروس جلد بحال نہ کی گئی تو ان کا روزگار متاثر ہوگا۔
ان کا کہنا ہے کہ گھر یا دفتر پر پی ٹی سی ایل کے نیٹ سے کام چل جاتا ہے لیکن باہر نکل کر اگر آپ کا کلائنٹ سے بروقت رابطہ نہیں ہوپایا تو پھر آرڈرز نہیں ملتے۔
 ژوب کے ایک تاجر عبداللہ مندوخیل نے بتایا کہ انٹرنیٹ بند ہونے کی وجہ سے ہمارے سودے منسوخ ہو رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ رقم کی ادائیگی یا وصولی کا کام پہلے منٹوں میں ہوجاتا تھا اب اس کے لیے بینک جانا پڑ رہا ہے جہاں رش ہوتا ہے اور لائنوں میں کھڑے ہوکر گھنٹوں انتظار میں ضائع ہو جاتے ہیں۔
پنجگور کے رہائشی ایک طالب علم مراد بلوچ نے بتایا کہ ضلع میں دو سال سے نیٹ بند ہے جس کی وجہ سے بہت سے طلبہ شہر چھوڑ کر کراچی یا کوئٹہ منتقل ہوگئے ہیں۔
مراد بلوچ کے مطابق انہیں بھی کوئٹہ منتقل ہونا پڑا کیونکہ وہ آئی ٹی سیکٹر میں اپنا کیریئر بنانا چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جب ضلع میں انٹرنیٹ ہی نہ ہو تو کیسے پڑھیں اور کیسے کیئریئر بنائیں۔ ہمیں اپنے گھر سے سینکڑوں کلومیٹر دور دوسرے شہر جاکر اضافی اخراجات برداشت کرنا پڑ رہے ہیں۔
متاثرہ اضلاع میں پی ٹی سی ایل کی لینڈ لائن انٹرنیٹ سروس کو متبادل کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے تاہم پی ٹی سی ایل کے ایک عہدے دار کے مطابق یہ سروس صرف صوبے کے بڑے شہروں اور ضلعی ہیڈ کوارٹرز تک محدود ہیں۔
ان کے بقول صوبے بھر میں پی ٹی سی ایل انٹرنیٹ کے صرف 70 ہزار صارفین ہیں۔ دور دراز اور دیہی علاقوں میں پی ٹی سی ایل کی سروس میسر نہیں۔

شیئر: