پاکستان میں شہریوں کی حفاظت: چین اپنے ’سکیورٹی سٹاف کی تعیناتی کا خواہاں‘
پاکستان میں شہریوں کی حفاظت: چین اپنے ’سکیورٹی سٹاف کی تعیناتی کا خواہاں‘
منگل 12 نومبر 2024 16:13
سرکاری طور پر بیجنگ اور اسلام آباد دونوں نے ان مذاکرات کی تصدیق نہیں کی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
چین پاکستان سے ملک میں موجود اپنے ہزاروں شہریوں کی حفاظت کے لیے اپنے (چائنیز) سکیورٹی سٹاف کی پاکستان میں تعیناتی کی اجازت دینے کا مطالبہ کر رہا ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق گذشتہ ماہ کراچی ایئرپورٹ کے باہر چینی شہریوں پر ہونے والے خودکش دھماکے کے بعد ہونے والے مذاکرات میں چین پاکستان سے مطالبہ کر رہا ہے کہ وہ چینی انجینیئرز کی حفاظت کے لیے چین کی سکیورٹی سٹاف کی ملک میں تعیناتی کی اجازت دے۔
بیجنگ کراچی دھماکے کو بہت بڑی سکیورٹی ناکامی کے طور پر دیکھ رہا ہے۔
اکتوبر میں پاکستان میں تعینات دو چینی انجینیئرز تھائی لینڈ میں چھٹیاں مناکر واپس کام پر آتے ہوئے کراچی ایئرپورٹ کے باہر ہونے والے خودکش دھماکے میں ہلاک ہوئے تھے۔ کراچی دھماکے کے علاوہ پاکستان میں موجود چینی کارکنوں اور شہریوں پر گذشتہ چند برسوں کے دوران متعدد حملے ہو چکے ہیں۔
ان حملوں اور ان میں ملوث ملزمان کی نشان دہی اور گرفتاری میں اسلام آباد کی ناکامی نے چین کو ناراض کر دیا ہے جس کے بعد چین اب پاکستان میں موجود اپنے شہریوں کے تحفظ کے لیے مشترکہ سکیورٹی میکنزم چاہتا ہے۔
چین کے ساتھ ہونے والے مذاکرات اور چینی مطالبات کے حوالے سے براہ راست خبر رکھنے والے پانچ سکیورٹی اور حکومتی حکام نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر روئٹرز سے بات کی ہے۔
چینی حکام کے ساتھ حالیہ مذاکرات میں شریک ایک افسر نے روئٹرز کو بتایا کہ ’وہ (چین) اپنے سکیورٹی اہکار لانا (پاکستان) چاہتے ہیں۔‘
ان کے مطابق پاکستان نے اب تک اس مطالبے کو تسلیم نہیں کیا ہے۔ یہ واضح نہیں کہ بیجنگ اس مقصد کے لیے فوجی اہلکار لانا چاہتا ہے یا پرائیویٹ سکیورٹی۔
سرکاری طور پر بیجنگ اور اسلام آباد دونوں نے ان مذاکرات کی تصدیق نہیں کی ہے۔
ایک ذریعے اور دیگر دو آفیشلز کے مطابق مذاکرات میں اس بات پر اتفاق تھا کہ مشترکہ سکیورٹی منیجمنٹ سسٹم ہونا چاہیے اور چینی آفیشلز کی سکیورٹی اجلاسوں میں بیٹھنے اور کوارڈینشن میں شرکت پر پاکستان کو اتفاق ہے۔
’تاہم چین کے سکیورٹی سٹاف کی جانب سے گراؤنڈ پر سکیورٹی انتظامات میں شمولیت پر کوئی اتفاق رائے نہیں ہوا ہے۔‘
ایک اور آفیشل نے روئٹرز کو بتایا کہ پاکستان نے چین سے کہا کہ وہ سکیورٹی میں براہ راست ملوث ہونے کے بجائے پاکستان کی انٹیلیجنس اور نگرانی کی مہارت بڑھانے میں معاونت کریں۔
چین کی وزارت خارجہ کے ایک ترجمان نے روئٹرز کو بتایا کہ انہیں پاکستان اور چین کے درمیان مشترکہ سکیورٹی منیجمنٹ کے حوالے سے ہونے والے مذاکرات کی تفصیل کا نہیں پتہ۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’چین پاکستان میں موجود چینی اہکاروں، منصوبوں اور اداروں کی حفاظت یقینی بنانے کے لیے پاکستان کے ساتھ تعاون مضبوط کرنے پر کام جاری رکھے گا۔‘
پاکستان آرمی کے تعلقات عامہ کے ادارے آئی ایس پی آر نے اس حوالے سے تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
پاکستان کی وزارت داخلہ اور منصوبہ بندی نے متواتر درخواستوں کے باوجود اس حوالے سے موقف نہیں دیا۔
تاہم گذشتہ ہفتے جاری ایک بیان میں پاکستان کی وزارت داخلہ نے کہا تھا کہ چین اور پاکستان مستقبل میں اس طرح کے حملوں کو روکنے کے لیے مشترکہ حکمت عملی ترتیب دینے پر اتفاق کیا ہے۔
سکیورٹی کی بڑی ناکامی
کراچی ایئرپورٹ حملے کی نوعیت نے چین کو ناراض کر دیا ہے جو کہ اب پاکستان میں موجود چینی ورکرز اور انجینئرز کی سکیورٹی انتظامات کو خود کنٹرول کرنے پر زور دے رہا ہے۔
حکام کے مطابق کراچی کے سخت سکیورٹی والے علاقے میں ایئرپورٹ کے بیرونی سکیورٹی حصار کے باہر 100 کلوگرام سے زائد دھماکہ خیز مواد سے بھرا ہوا پک اپ ٹرک 40 منٹ سے زیادہ کسی سکیورٹی چیک کے بغیر اس وقت تک کھڑا رہا جب تک اس کے ڈرائیور نے اسے چینی انجینیئرز کو لے جانے والے قافلے سے جا نہ ٹکرایا۔
اس دھماکے کی تحقیقات کرنے والے آفیشل نے تسلیم کیا کہ یہ سکیورٹی کی بہت بڑی ناکامی ہے جو کہ چینی وزیراعظم کے دورہ اسلام آباد کے ایک ہفتے بعد ہوا۔
حکام کے مطابق دھماکے کی تفتیش کرنے والوں کا خیال ہے کہ حملہ آوروں کو چینی انجینیئرز کی آمد اور ان کے روٹ کے حوالے سے معلومات ’اندر‘ ہی سے ملی تھی۔
انجینئرز کو ایئرپورٹ سے سکیورٹی کے حصار میں واپس سی پیک کے تحت قائم کیے گئے بجلی کے پلانٹ پر لے کر جانا تھا۔
سی پیک کے 65 ارب ڈالرز کے منصوبوں پر کام کے لیے ہزاروں چینی ناشندے پاکستان میں ہیں۔
چین کی مایوسی اور غصہ
چین نے سکیورٹی انتظامات بڑھانے کے مطالبے کے باوجود باضابطہ طور پر ہمیشہ پاکستان کے انتظامات کی حمایت کی ہے۔
تاہم نجی طور پر چین غصے اور مایوسی کا اظہار کر رہا ہے۔
روئٹرز سے بات کرنے والے تین سرکاری حکام کے مطابق ایک حالیہ اجلاس کے دوران چین نے پاکستان کو ثبوت فراہم کیے کہ پاکستان حکام چند ماہ قبل طے شدہ سکیورٹی پروٹوکولز کو فالو کرنے میں ناکام ہوا ہے۔
ان پروٹوکولز کے مطابق چینی آفیشلز اور ورکرز کو ان کی مومنٹ کے دوران سخت سکیورٹی فراہم کرنا ضروری ہے۔
چینی ورکرز اور شہری بلوچستان کے علیحدگی پسند گروپوں کے نشانے پر ہیں جن کا الزام ہے کہ چین صوبے کے معدنی ذخائر کا استحصال کر رہا ہے۔
پاکستان آرمی کے ہزاروں اہلکار، آفیسر اور پولیس اہلکار شپیشل پروٹیکشن یونٹ کے نام سے قائم یونٹ کے تحت چینی انجینیئرز، ورکرز اور باشندوں کی حفاظت پر مامور ہیں۔
پاکستان حکام کے مطابق صرف پاکستان میں چین کے سفارتخانے اور دیگر شہروں میں موجود قونصل خانوں کو اجازت ہے کہ وہ سکیورٹی کے لیے چینی سکیورٹی اہلکار رکھ سکتے ہیں۔