شانگلہ تقریری مقابلے کی فاتح طالبہ دوڑ سے باہر، ’لڑکیاں آگے حصہ نہیں لے سکتیں‘
منگل 19 نومبر 2024 19:16
ادیب یوسفزئی - اردو نیوز، لاہور
ماہر تعلیم سلطان سکندر کے مطابق طالبہ کو ڈویژنل سطح کے تقریری مقابلے سے روکنا صنفی امتیاز کی انتہا ہے۔ (فوٹو: ایکس)
خیبر پختونخواہ کے مختلف اضلاع میں سالانہ ہم نصابی و غیر نصابی سرگرمیاں جاری ہیں۔ اس دوران ضلع شانگلہ میں ایک طالبہ کو ضلعی سطح پر تقریری مقابلہ جیتنے کے باوجود ڈویژنل سطح کے مقابلوں میں شرکت کرنے نہیں دیا جا رہا ہے۔ مبینہ طور پر ضلعی کمیٹی نے طالبہ کو یہ کہتے ہوئے ڈویژنل مقابلے میں شرکت سے روک دیا کہ وہ ایک لڑکی ہے۔
ضلعی کمیٹی کے بقول پالیسی کے مطابق کوئی لڑکی ڈویژنل سطح پر ان مقابلوں میں حصہ نہیں لے سکتی تاہم خیبر پختونخواہ کی وزارت تعلیم کے ترجمان اور محکمہ تعلیم میں ڈائریکٹر سپورٹس نے ایسی کسی بھی پالیسی کی تردید کی ہے۔
خیبرپختونخوا کے مختلف اضلاع میں غیر نصابی سرگرمیوں کے لیے زون اور ضلعی سطح پر مقابلے منعقد ہوئے۔ ان مقابلوں میں کرکٹ، والی بال، اردو اور انگلش تقریر، مضمون نگاری اور دیگر مقابلے شامل ہیں۔
زونل سطح پر کامیابی پانے والے طلبا و طالبات کو ضلعی سطح پر مقابلوں کے لیے بھیجا جاتا ہے جس کے بعد ڈویژن اور پھر صوبائی سطح پر مقابلے منعقد ہوتے ہیں۔
ضلع شانگلہ میں برائٹ فیوچر پبلک سکول کروڑہ کی طالبہ لیاح نصیب انگلش تقریری مقابلے میں ضلعی سطح پر فاتح قرار پائی جبکہ دوسرے نمبر پر سرکاری سکول کے طالب علم نے کامیابی حاصل کی۔ تاہم ضلعی کمیٹی کی جانب سے سکول کے پرنسپل کو بتایا گیا کہ لڑکی ہونے کی وجہ سے لیاح نصیب ڈویژنل مقابلوں میں حصہ نہیں لے سکتیں۔
برائٹ فیوچر پبلک سکول کروڑہ نے انگلش تقریر میں پہلی پوزیشن حاصل کرنے کے بعد سوشل میڈیا پر اپنی کامیابی کا پیغام بھی جاری کیا۔
سکول کے پرنسپل فدا محمد خان نے اردو نیوز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ضلعی کمیٹی نے انہیں کامیاب طلبا کی فہرست بھی دی جس میں ان کے سکول کو فاتح قرار دیا گیا تھا۔
ان کے بقول ’ضلعی کمیٹی نے ہمیں فاتحین کی فہرست دی جس میں میرے سکول کو انگلش تقریر میں کامیاب قرار دیا گیا تھا تاہم مجھے یہ بھی کہا گیا کہ لیاح نصیب مزید مقابلوں میں حصہ نہیں لے سکتی۔ مجھے کہا گیا کہ یہ سرکاری پالیسی ہے جس کے تحت ان مقابلوں میں لڑکیوں کو ضلعی سطح پر بھی مقابلے کی جازت نہیں ہوتی تاہم آپ کے سکول کی طالبہ کو اجازت دی گئی لیکن اب مزید ڈویژن کی سطح پر ایک طالبہ کو نہیں بھیجا جا سکتا۔‘
فدا محمد خان نے کہا کہ ’لیاح نصیب کے والدین نے بھی انہیں اجازت دے رکھی ہے لیکن پالیسی کی وجہ سے وہ مزید آگے نہیں جا سکتیں۔‘ ان کے بقول 'یہ مقابلے ہر سال منعقد ہوتے ہیں لیکن اس بار جب ہماری بچی فاتح قرار پائی تو انہیں خارج کر دیا گیا۔
کمیٹی نے یہ سوچ کر نام خارج کیا ہے کہ یہ ضلع شانگلہ کے روایات کے برعکس ہے کہ کوئی لڑکی ڈویژنل مقابلوں میں حصہ لے۔
جب اردو نیوز نے ضلعی ایجوکیشن آفیسر مظفر سید سے رابطہ کیا تو انہوں نے لیاح نصیب کو مقابلوں میں حصہ لینے سے روکنے کی تصدیق کی۔
ان کے بقول ’یہ سرکاری پالیسی ہے کہ کوئی لڑکی ان مقابلوں میں ڈویژن یا ضلعی سطح پر حصہ نہیں لے سکتی۔ صوبے بھر میں لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے الگ مقابلوں کا انعقاد کیا جاتا ہے اس لیے یہ مقابلے صرف لڑکوں کے لیے مختص ہیں۔‘
ان کے مطابق وہ تقریری مقابلے کے وقت وہاں موجود تھے اور نتائج کا اعلان بھی ان کے سامنے ہوا ہے۔
مظفر سید کا کہنا ہے کہ 'نتائج کا اعلان میرے سامنے ہوا اور کمیٹی نے لیاح نصیب کی تقریر کی تعریف بھی کی اور یقین دہانی کرائی ہے کہ انہیں باقاعدہ سرکاری انعام دیا جائے گا اور انہیں تقریب تقسیم انعامات میں بھی بلایا جائے گا لیکن وہ مزید آگے مقابلوں میں حصہ نہیں لے سکتی۔‘
اس حوالے سے ضلع بھر کے عوام سوشل میڈیا پر تنقید کر رہے ہیں جبکہ فدا محمد نے بھی اس پالیسی کا احترام کرتے ہوئے فیصلہ قبول کر لیا ہے لیکن ان کا شکوہ برقرار ہے۔
’اگر یہ پالیسی حقیقت میں موجود ہے تو پھر ہم اس فیصلے کا احترام کرتے ہیں لیکن اگر یہ پالیسی وجود نہیں رکھتی تو ہم اس کے خلاف ہر حد تک جائیں گے۔‘
ضلع شانگلہ کے غیر نصابی سرگرمیوں میں پیش پیش رہنے والے سابق ہیڈ ماسٹر اور ماہر تعلیم سلطان سکندر اس عمل کو صنفی امتیاز کی انتہا قرار دیتے ہیں۔
’لڑکے اور لڑکیوں کے لیے تو سرکاری سکول الگ ہیں لیکن نجی تعلیمی اداروں میں لڑکے اور لڑکیاں ایک ساتھ پڑھتے ہیں۔ تو ایسے میں لڑکیوں کو ان مقابلوں سے محروم کرنا نا انصافی ہے۔ میرے اپنے طلبا بھی اس تفریق کا شکار ہوچکے ہیں۔‘
ان کے مطابق انہوں نے اس صنفی امتیاز کے خلاف آواز بھی اٹھائی تھی لیکن ان کی بات کو نظر انداز کیا گیا۔ ’یہ صرف آج کی بات نہیں ہے۔ یہ پہلے بھی ہوتا رہا ہے اور اگر اسے نہیں روکا گیا تو یہ مستقبل میں بھی ہوتا رہے گا۔ یوں ہماری بچیاں کلاس رومز تک محدود رہ جائیں گی اور انہیں مواقع نہیں ملیں گے۔‘