وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے کہا ہے کہ ’اسلام آباد ہائی کورٹ نے کسی قسم کے احتجاج اور دھرنے کی اجازت نہیں دی، معاملہ بات چیت سے حل کرنے کی تلقین کی ہے۔‘
بدھ کی رات کو ایک ویڈیو بیان میں ان کا کہنا تھا کہ ’اسلام آباد ہائی کورٹ کا آرڈر واضح ہے، کسی بھی قسم کے احتجاج اور دھرنے کی کوشش غیر قانونی ہوگی۔‘
’انتظامیہ سے کہا گیا ہے کہ شہریوں کے جان و مال کا تحفظ یقینی بنایا جائے، وفاق پر لشکر کشی سمجھ سے بالاتر ہے، تحریک انتشار نے احتجاج کرنا ہے تو اپنے صوبے میں احتجاج کرے۔‘
وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ ’کسی قسم کے احتجاج کی اجازت نہیں ہوگی، قانون پر ہر صورت مکمل عمل درآمد ہوگا اور خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔‘
’خیبر پختونخوا حکومت احتجاج پر سرکاری وسائل کا بے دریغ استعمال کرتی ہے، وزارت داخلہ چیف سیکریٹری اور آئی جی خیبر پختونخوا کو خط میں واضح کر چکی ہے کہ سرکاری وسائل بروئے کار نہیں لائے جا سکتے۔‘
عطا اللہ تارڑ کا کہنا تھا کہ ’چیف سیکریٹری خیبر پختونخوا نے بھی صوبے کے تمام افسران کو سیاسی سرگرمیوں میں شمولیت سے منع کیا ہے۔‘
اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے پولیس افسران اور پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کے افسران پر واضح کر دیا ہے کہ وہ کسی بھی سیاسی سرگرمی میں ملوث نہیں ہو سکتے۔‘
اسلام آباد ہائیکورٹ کا وزیرداخلہ کو پُرامن احتجاج کے لیے پی ٹی آئی سے مذاکرات کا حکم
اسلام آباد ہائی کوٹ نے پی ٹی آئی کے 24 نومبر کے احتجاج سے متعلق حکم دیا ہے کہ اسلام آباد انتظامیہ مروجہ قانون کے خلاف دھرنا، ریلی یا احتجاج کی اجازت نہ دے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے جمعرات کی شام پی ٹی آئی کے احتجاج سے متعلق درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ’امن و امان قائم رکھنے کے لیے اسلام آباد انتظامیہ قانون کے مطابق تمام اقدامات اٹھائے۔‘
فیصلے مطابق ’انتظامیہ کی ذمہ داری ہے قانون کی خلاف ورزی نہ ہونے دی جائے۔ یقینی بنایا جائے عام شہریوں کے کاروبار زندگی میں کوئی رخنہ نہ پڑے۔‘
اسلام آباد ہائی کورٹ نے مزید کہا کہ ’پُرامن احتجاج اور پبلک آرڈر 2024 دھرنے، احتجاج، ریلی وغیرہ کی اجازت کے لیے مروجہ قانون ہے۔ انتظامیہ مروجہ قانون کے خلاف دھرنا، ریلی یا احتجاج کی اجازت نہ دے۔‘
تفصیلی خبر پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
مذاکرات دھمکیوں سے نہیں ہوتے، وزیر داخلہ کی پی ٹی آئی سے مذاکرات کی تردید