Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دھرنا ہوگا یا کوئی ڈیل؟ اجمل جامی کا کالم

رانا ثناء اللہ برملا کہہ رہے تھے کہ خان کو نکالا تو پھر ہم اڈیالہ ہوں گے (فائل فوٹو: ایکس، پی ٹی آئی)
عجب صورتحال درپیش ہے، قیاس تو ہے مگر جانکاری بھی اور اس بیچ بھانت بھانت کی بولیوں کا تو شمار ہی کیا؟ کپتان نے جیل سے 24 نومبر کی فائنل کال دے رکھی ہے۔
معلوم ہوا ہے کہ اس بار کے پی سے مختلف اطراف سے قافلے اسلام آباد لانے کا ارادہ ہے، پنجاب بھر سے آنے والے اگر اسلام آباد تک نہ پہنچ سکے تو پھر لاہور میں بھی دھرنا دینے کا پلان زیر غور ہے۔
یہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے 31 اہم شہروں (بشمول دارالحکومتوں) میں  بھی تحریک انصاف اسی روز احتجاج برپا کرنے کی ترکیب پبلک کر چکی۔ فنڈنگ کے مسائل تھے، دستیاب قیادت اس بابت بار بار کپتان کو اطلاع دے رہی تھی لیکن اب واقفان حال کے مطابق بیرون ملک سے چاہنے والوں نے خاطرخواہ انتظام کر دیا ہے۔
تو پھر مسئلہ کیا ہے؟ مسئلہ دستیاب قیادت کی نیم دلی ہے؟ حالات کا جبر ہے؟ سیاسی و غیرسیاسی مجبوریاں ہیں یا پس پردہ جاری معاملہ فہمی کی کوششیں؟
قیادت کی نیم دلی تو اب زیادہ کارگر نہیں رہی، بالخصوص جب سے سابق خاتون اول کا پردے کے پیچھے سے خطاب منظرعام پر آیا۔
حالات کا جبر بھی معمول بنتا جا رہا ہے، سیاسی و غیرسیاسی مجبوریاں البتہ پس پردہ معاملہ فہمی کی کاوشوں میں ضم ہوتی دکھائی دیتی ہیں۔ یعنی معلوم ہوتا ہے کہ  اب پس پردہ جاری کاوشیں حقیقت کا روپ دھار رہی ہیں، یہی وجہ ہے کہ سوموار کو ہونے والی ایپکس کمیٹی کا اجلاس جناب وزیراعظم  کی ناسازی طبع کے کارن منگل کو ہوا، اس سے پہلے جناب گنڈاپور کی بھی راجدھانی میں موجودگی کی اطلاعات ملی، پھر کیمرے نے دکھایا کہ جناب گنڈاپور وزیرداخلہ کے ساتھ تشریف فرما تھے، اور اطلاع ملی کہ راہداری میں بھی کچھ اہم شخصیات سے مختصر ملاقات ہوئی؛
اس جگہ جا کے وہ بیٹھا ہے بھری محفل میں
اب جہاں میرے اشارے بھی نہیں جا سکتے
لیکن وہاں موجود حضرات تو بدن بولی کا جائزہ بدستور لیتے رہے۔ اسی کارن قیاس آرائی ہوئی کہ قبلہ پس پردہ کچھ نہ کچھ معاملہ فہمی تو ہورہی ہے وگرنہ گنڈاپور اور اس قدر شانت اور تقریباً تمام گفتگو دہشت گردی سے جڑے مسائل پر ہی موقوف رکھیں؟ 

پشاور ہائیکورٹ نے بشریٰ بیگم کو 23 دسمبر تک کسی بھی مقدمے میں گرفتاری سے روک دیا ہے (فائل فوٹو: ویڈیو گریب)

گنڈاپور پھر یہیں نہیں رکے بلکہ پہلی بار دو روز مسلسل اڈیالہ میں کپتان کے ساتھ طویل دورانیے کی ملاقاتیں کر آئے۔ اہم پہلو یہ ہے کہ دونوں ملاقاتوں کے بعد جناب گنڈاپور میڈیا سے ذرا برابر بھی مخاطب نہ ہوئے۔
 ہاں ہر ملاقات کے بعد فوراً پارٹی زعما کے ساتھ پہروں سر جوڑے مصروف رہے۔ ادھر ایپکس کمیٹی میں وزیراعظم بھی فرما رہے تھے کہ ادب سے درخواست ہے کہ سب مل بیٹھ کر معاملات پر غور کریں، ہمیں فیصلہ کرنا ہو گا کہ ترقی چاہیے یا انتشار۔ یعنی فائنل کال کی تپش اعلیٰ سطحی کمیٹی کے ہاں بھی محسوس کی گئی۔
جناب وزیراعظم کی اس ہمدردانہ اپیل سے پہلے سہ پہر معلوم ہوا کہ پشاور ہائیکورٹ نے بشریٰ بیگم کو 23 دسمبر تک کسی بھی مقدمے میں گرفتاری سے روک دیا ہے۔
اگلے روز توشہ خانہ ٹو کیس کا محفوظ فیصلہ بھی سامنے آ گیا، کپتان کو دس دس لاکھ مچلکوں کے عوض ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا گیا۔ یہ اور بات کہ اس کے باوجود وہ رہا نہیں ہوں گے کہ ان گنت دیگر کیسز کی وجہ سے فوری رہائی فوراً دکھائی نہیں دیتی۔ ریلیف کی سی یہ پیش رفت کیا محض اتفاقیہ ہے یا اعتماد سازی؟
خاکسار کا شاکی ذہن اسے اعتماد سازی میں شمار کرنے پر مجبور ہے۔ فائنل کال کامیاب ہو یا نہ ہو، اپنی بلا سے، البتہ اس کی تپش اور اس کا ماحول وہ واحد عنصر ہے جس نے صورت حال کو دلچسپ کر رکھا ہے۔ اچانک کال، اور پھر جیل میں ایک رہنما سے کپتان کا یہ کہنا کہ جو میں جانتا ہوں آپ نہیں جانتے، یقیناً کسی خواب یا امید کا شاخسانہ ہے۔ آپ خود دیکھ لیجیے، ٹرمپ کے آنے سے پہلے ہی کانگریس ارکان دو بار خط لکھ چکے، امریکی سرکار سے پاکستان بارے پالیسی میں تبدیلی لاتے ہوئے کپتان اور اس کی پارٹی سے جڑے معاملات پر توجہ دلانے کا اصرار کر رہے ہیں، پاکستانی انتخابات کو مشکوک قرار دے رہیں ہیں، یہاں انسانی حقوق  کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔

ایپکس کمیٹی میں وزیراعظم نے کہا کہ سب مل بیٹھ کر معاملات پر غور کریں (فائل فوٹو: اے ایف پی)

 اور اس کاوش میں اہم ترین کردار ریپبلکن ارکان کا ہے۔ اگر بائیڈن کے آخری چند ہفتوں میں یہ صورتحال ہے تو پھر 20 جنوری کے بعد پھر کیا منظرنامہ ہوگا؟ یہ الگ بحث کہ امریکی مداخلت پر تحریک انصاف والے کبھی ابسولوٹلی نو کہا کرتے تھے۔
اب منطق یہ ہے کہ بدلتے منظرنامے میں بین الاقوامی قوتیں اپنے آپ کو پاکستان کی بگڑتی صورتحال سے دور نہیں رکھ سکیں گی۔ اب تکیہ ہے ٹرمپ کی جذباتی اور سوشل میڈیا کے شور سے متاثر افتاد طبع پر۔ جہاں سے امید کی جا رہی ہے کہ دیر سویر موصوف کی ٹائم لائن پر کپتان اور اس کی جماعت کا ذکر خیر ہو گا۔
 یہی نہیں بلکہ برطانوی وزیرخارجہ بھی اپنے ایم پیز کو یقین دہانیاں کروا رہے ہیں کہ ان کی پاکستان کی اعلیٰ شخصیات سے رابطہ ہوا ہے اور وہ یقین دلاتے ہیں کہ کپتان کا ملٹری ٹرائل نہیں ہو گا۔  
رہ گئی سرکار تو ان کے ہاں کپتان کے معاملے پر اس قدر کلیرٹی ہے کہ رانا ثناء برملا کہہ رہے تھے کہ خان کو نکالا تو پھر ہم اڈیالہ ہوں گے۔ مقتدرہ اور سرکار دونوں اس اہم مدعے پر ایک پیج پر ہیں اور تاحال ان کی پالیسی میں کوئی بڑا شفٹ دکھائی نہیں دیتا۔

عمران خان سے دونوں ملاقاتوں کے بعد علی امین گنڈاپور میڈیا سے مخاطب نہیں ہوئے (فائل فوٹو: ایکس، پی ٹی آئی)

کچھ پہنچے ہوئے دانشور تو یہ بھی سمجھتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں کوئی نیا کٹا کھلے گا اور بات لٹک جائے گی۔ لیکن سب سے اہم سوال یہی ہے کہ کیا اعتماد سازی کی اب تک ہوئی چند ایک کاوشوں کے نتیجے میں دھرنا ملتوی ہو گا؟ جواب  ہے نہیں۔ تو پھر ایسی کیا آفر ہے جس سے دھرنا ملتوی ہو سکتا ہے؟
کسی سیانے نے دبے لفظوں میں جواب دیا کہ دیے گئے مطالبات پر تو فوراً عمل درآمد نہیں ہو سکتا، سیاسی عدم استحکام کا واحد حل نئے انتخابات ہی ہیں لیکن اس کے لیے سال دو مزید انتظار کرنا ہو گا اور اسے پہلے کپتان کو اگر بنی گالہ یا زمان پارک منتقل کر دیا جائے تو  فائنل کال مؤخر یا التوا کا شکار ہو سکتی ہے۔ اعتماد سازی اگر حقیقی ہے تو پھر یہ ریلیف یقیناً ماحول بہتر کر سکتا ہے۔ عوام البتہ بدستور لٹکے ہوئے ہیں، سیاسی اور معاشی عدم استحکام کے بیچ عوام کو شانتی کی تلاش ہے۔
کب ٹھہرے گا درد اے دل کب رات بسر ہو گی
سنتے تھے وہ آئیں گے سنتے تھے سحر ہو گی

شیئر: