Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

برطانیہ میں گاڑیاں دھونے والے انسانی سمگلر نکلے، ہزاروں کو مشرق وسطیٰ سے یورپ پہنچا دیا

دلشاد شامو اور علی خدیر انسانی سمگلنگ کے منظم گروپ کے لیے کام کر رہے تھے (فوٹو: عرب نیوز)
برطانوی دارالحکومت لندن میں گاڑیاں دھونے کا کام کرنے والے شخص کی جانب سے ہزاروں لوگوں کو غیرقانونی طور پر یورپ لے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔
عرب نیوز میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق یورپ سمگل ہونے والوں میں سے زیادہ تر افراد مشرق وسطیٰ سے لے جائے گئے تھے۔
ملزموں کا نیٹ ورک شام، عراق اور ایران میں کام کر رہا تھا اور لوگوں کو نوکریوں کی پیشکش کر کے مختلف روٹس کے ذریعے یورپ لے جاتے تھے۔
برطانیہ میں انسانی سمگلنگ کے الزام کے تحت گرفتار ہونے والے دو افراد نے اعتراف جرم کیا ہے۔
برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ 41 سالہ دلشاد شامو اور 40 سالہ علی خدیر ویلز کے علاقے کیرفیلی میں ایک غیرمعروف کار واش کا کام چلا رہے تھے۔
ان کو اپریل 2023 میں گرفتار کیا گیا تھا اور دوران تفتیش یہ بات سامنے آئی تھی کہ وہ ہرہفتے 100 کے قریب افراد کو یورپ پہنچا رہے تھے اور یہ سلسلہ دو سال سے جاری تھا۔
ملزمان سوشل میڈیا ایپس کے ذریعے تشہیر کرتے تھے جن میں ان لوگوں کی بات چیت بھی شامل ہوتی جو ان کے توسط سے سفر کر چکے تھے۔
ایک ویڈیو میں ٹرک کے پیچھے سے ایک شخص کو کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ ’ڈرائیور کو سفر کے بارے میں تفصیلات دے دی گئی ہیں، ہمارے ساتھ مردوں کے علاوہ خواتین بھی بچے بھی ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ روٹ اچھا اور آسان تھا۔‘

یورپ لے جائے والے افراد میں سے زیادہ تر کا تعلق مشرق وسطیٰ سے ہے (فوٹو: روئٹرز)

ایک اور ویڈیو میں ایک فیملی کو جہاز میں سفر کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ ’ہم بہت خوش ہیں، یہ ہمارے ویزے ہیں۔‘
شامو اور خدیر تین قسم کی خدمات پیش کرتے تھے، کم تعداد میں لوگوں کو پیدل یا گاڑی پر سفر کرانا اور پھر ان کو کسی کشتی یا جہاز پر سوار کرانا جبکہ سب سے اوپر کا درجہ ہوائی جہاز کے ذریعے سفر کا تھا۔
این سی اے کا کہنا ہے کہ لوگوں کو ترکیہ، بیلاروس، مالدووا اور بوسنیا کے راستے اٹلی، رومانیہ، بلغاریہ، سالوینیا، جرمنی اور فرانس تک پہنچایا جاتا تھا، جبکہ ان میں سے کافی لوگوں کو یوکے کی طرف بھی لے جایا جاتا۔
رپورٹ کے مطابق رقم کی وصول کے لیے ’حوالہ‘ کا طریقہ کار اختیار کیا جاتا تھا اور اس کے لیے استنبول اور عراق میں موجود بروکرز کو استمعال کیا جتا۔
پیسے جمع ہونے کا پیغام وصول ہونے کے بعد شامو اور خدیر لوگوں کی منتقلی کے لیے متحرک ہو جاتے تھے اور یورپ کے سمگلرز سے رابطوں کے لیے وٹس ایپ استعمال کرتے تھے۔
این سی اے کا کہنا ہے کہ دونوں افراد ایک بڑے اور منظم گروپ کا حصہ تھے اور لاکھوں پاؤنڈز کما چکے ہیں۔
این سی اے کے برانچ کمانڈر ڈیریک ایونز کا کہنا ہے کہ ’علی خدیر اور دلشاد شامو دوہری زندگی گزار رہے تھے، ظاہری طور پر وہ گاڑیاں دھونے کا کام کر رہے تھے مگر اصل میں وہ انسانی سمگلنگ کرنے والے گروپ کے ساتھ جڑے ہوئے تھے۔‘

بارڈر سکیورٹی اور ازائلم سے متعلقہ امور کی وزیر اینجیلا ایگل کا کہنا ہے کہ سمگلرز کے خلاف سخت کارروائی کی جا رہی ہے (فوٹو: اے ایف پی)

برطانیہ کی بارڈر سکیورٹی اور ازائلم سے متعلقہ امور کی وزیر اینجیلا ایگل کا کہنا ہے کہ ’شامو اور خدیر جیسے مجرموں نے صرف پیسے کے لیے انتہائی بے شرمی سے بے شمار زندگیوں کو خطرے میں ڈالا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم سمگلنگ کرنے والی گینگز کے خلاف کارروائی کر رہے ہیں، ان کے نیٹ ورکس کو توڑا جا رہا ہے اور ان کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔‘
برطانوی وزیراعظم کیر سٹارمر نے اپنی انتخابی مہم کے دوران انسانی سمگلنگ کو روکنے کو مرکزی وعدے کے طور پر استعمال کیا تھا۔
انہوں نے انسانی سمگلروں کے ساتھ دہشت گردوں جیسا سلوک کرنے کا عزم بھی ظاہر کیا ہے اور ان کے بینک اکاؤنٹس بند کرنے کے لیے اضافی اختیارات کے ساتھ ایک نئی بارڈر سکیورٹی کمانڈ کا اعلان بھی کیا ہے۔

شیئر: