اوشن وارمنگ کے سنگین اثرات اور سمندری حیات کو لاحق خطرات
اوشن وارمنگ کے سنگین اثرات اور سمندری حیات کو لاحق خطرات
اتوار 24 نومبر 2024 7:55
خولہ اعجاز
پانی کا درجہ حرارت بڑھنے سے سمندری پرندے بھی متاثر ہوئے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی
سال 2023 کے اواخر میں براعظم جنوبی امریکہ میں واقع ایمازون ریور کی ٹیفے جھیل میں 155 ڈولفنز مردہ پائی گئیں جبکہ اسی طرح کوآری جھیل میں 120 دریائی ڈولفنز کی اموات رپورٹ ہوئیں۔
سال 2018 سے وقفے وقفے سے دنیا کے مختلف خطوں سے سمندری مخلوقات کے مردہ پائے جانے کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں لیکن 2021 میں شمالی امریکہ میں مجموعی طور پر ایک ارب سمندری حیات کے خاتمے کا تہلکہ خیز انکشاف ہوا جہاں سٹار فش، کیکڑے حتیٰ کہ سمندری پرندے جیسے بگلے بھی مردہ پائے گئے جبکہ سمندر میں موجود کورل ریفز کو بھی ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا اور وہ تباہ ہوگئے۔
ساتھ ہی امریکی ماہرین نے تنبیہ کی تھی کہ آنے والے سالوں میں ان کی تعداد میں اضافہ ہوسکتا ہے۔
یہ سطریں پڑھ کر سب سے پہلے ذہن میں خیال یہی آئے گا کہ سمندری حیات کی اموات کی وجہ آلودگی ہوگی لیکن ایسا نہیں! یہ قیمتی سمندری حیات اوشن وارمنگ کی وجہ سے اپنی جانوں سے گئیں۔
گلوبل وارمنگ کی اصطلاح سے تو ہم سب ہی واقف ہیں لیکن اوشن وارمنگ حالیہ برسوں میں سامنے آنے والی ایسی اصطلاح ہے جس نے بہت تیزی سے دنیا کو تشویش میں مبتلا کیا ہے۔
اوشن وارمنگ کیا ہے؟
اوشن وارمنگ، گلوبل وارمنگ کی ہی ایک ذیلی اصطلاح ہے کہ جس میں گرم درجہ حرارت کے باعث سمندر گرم ہوجاتا ہے اور یہ پھیلنے لگتا ہے جس کی وجہ سے سمندر کی سطح میں اضافہ ہوتا ہے۔
سمندر کی سطح میں اضافے کی بنیادی وجہ گرم درجہ حرارت کے باعث گلیشیئرز کی پگھلاوٹ بتائی جاتی ہے جبکہ بخارات بننے کا عمل بھی تیز ہو جاتا ہے جس سے درجہ حرارت کم نہیں بلکہ مزید بڑھ جاتا ہے۔
اوشن وارمنگ کے حوالے سے معروف ماہرِ ماحولیات اوراسلام آباد میں واقع لیڈ پاکستان نامی ماحولیات اور ترقیاتی مسائل پر خصوصی طور پر کام کرنے والی تھنک ٹینک کے سی ای او، علی توقیر شیخ نے بتایا کہ ‘درجہ حرارت میں تبدیلی کے باعث پاکستان کے گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں جن کی وجہ سے لاکھوں کروڑوں ٹن پانی سمندر میں شامل ہو رہا ہے۔
اس سے کوسٹ لائن سمندر میں برد ہوتی رہتی ہے۔ اس کی وجہ سے ٹروپیکل طوفانوں میں بھی شدت آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں گزشتہ دو دہائیوں میں 50 سالوں کی نسبت سب سے زیادہ ٹروپیکل طوفان آئے ہیں جن کی وجہ سمندر میں رونما ہونے والی تبدیلی ہے۔ گرم درجہ حرارات سے ہوا کا ویکیوم بنتا ہے جس سے اربن فلڈنگ ہوتی ہے اور روایتی زراعت کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔ یوں درجہ حرارت میں اضافہ سمندری اور بری دونوں حیات کے لیے نقصان دہ ہے۔‘
درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے سمندری پانی گرم ہو رہا ہے جبکہ گرین ہاؤس گیسز کے اخراج کی وجہ سے یہ گرمی فضا میں ہی مقیط ہے اور بخارات بننے اور بارش برسنے کے بعد ماحول ٹھنڈا نہیں ہو رہا۔
سائنسی تحقیق نے پیش گوئی کی ہے کہ مالدیپ 2100 تک ڈوب سکتا ہے جس پر مالدیپ نے گلیشیئرز پگھلنے کو اپنا کلیدی مسئلہ قرار دیا ہے۔ اس حوالے سے علی توقیر شیخ نے بتایا کہ نیپال میں اس سلسلے میں ایک اجلاس بھی منعقد ہوا تھا جس میں مالدیپ نے اپنے مسئلے کو اجاگر کیا اور اس اجلاس میں پاکستان کو بھی مدعو کیا گیا۔
رواں ماہ جاری کوپ 29 کانفرنس میں پاکستان کا ایجنڈا بھی گلیشیئرز کے گرد گھومتا ہے جہاں موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے پاکستان کو سنگین موسمیاتی نتائج کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
تلخ حقیقت یہ ہے کہ انڈیا اور چین جیسے ممالک فوسل فیول کا استعمال ترک نہیں کر رہے جس کے اثرات جنوبی ایشیائی خطے پر مرتب ہو۔ رہے ہیں۔ ان کے مجرمانہ اقدامات سے کاربن کا اخراج بڑھ رہا ہے جس کی وجہ سے بنگلہ دیش کے چند جزیروں اور مالدیپ پر ممکنہ طور پر ڈوبنے کے خطرات منڈالا رہے ہیں۔
سمندر صاف ہوا کا ذریعہ
اس حقیقت سے سب واقف ہیں کہ ہمارا سمندر زمینی مخلوقات کو 90 فیصد آکسیجن فراہم کرنے کا ذریعہ ہے۔ اس کے علاوہ فوسل فیولز جلانے سے خارج ہونے والا کاربن بھی سمندر میں جذب ہوجاتا ہے جبکہ گرین ہاؤس گیسز کے اخراج کو کم کرنے میں انسانوں کی ناکامی کی وجہ سے سمندر کو اس کا نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے جو کہ 90 فیصد گرمائش اور 30 فیصد کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتا ہے۔
امریکی خلائی ادارے ناسا کے مطابق دنیا بھر کی موسمیاتی تبدیلی کے 90 فیصد اثرات سمندر پر رونما ہو رہے ہیں جبکہ گزشتہ دو دہائیوں میں سمندری درجہ حرارت میں سب سے زیادہ اضافہ رپورٹ ہوا جس کی وجہ سے سمندری مخلوقات کی اموات ریکارڈ کی گئیں۔ بڑھتے درجہ حرارت کا اثر سمندر کی زیرو سے 200 میٹر کی گہرائی پر مرتب ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ 700 میٹرز تک سمندر میں سورج کی روشنی جاسکتی ہے جبکہ اس سے نیچے اندھیرا ہوتا ہے جبکہ 200 میٹر تک حصے میں رہنے والی شارکس، ویلز، سٹار فش، ڈولفنز، ٹونا، کیکڑے، کچھوے حتیٰ کہ بگلے جیسی مخلوقات بھی اوشن وارمنگ کا براہِ راست شکار بن رہے ہیں۔
ایل نینو ایفکٹ
پاکستان کے شہروں میں جیسے ہیٹ ویو آتی ہے بالکل اسی طرح سمندر میں بھی ہیٹ ویو آتی ہیں۔ اس حالیہ سلسلے کا پہلا واقعہ 2017 اور 2018 میں نیوزی لینڈ کی ہیٹ ویو تھی۔ یہ اس وقت ملکی تاریخ کا گرم ترین سال تھا جبکہ جنوری 2018 گرم ترین مہینہ تھا۔ اس واقعے نے پہلی بار عوام کی توجہ اوشن وارمنگ کی جانب مبذول کی۔
اس کے بعد یہ لہر جسے جغرافیائی طور پر ماہرین نے ٹریک کیا یہ 2021 فروری میں شمالی امریکہ پہنچ چکی تھی جہاں سمندری مخلوقات کی اموات کا ذکر پہلے کیا جا چکا ہے۔
یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ یہ لہر کیا ہے جس نے دنیا بھر کے سمندری ماہرین کو گہری تشویش اور افراتفری میں مبتلا کر دیا ہے۔ آئیے اس کے بارے میں مختصراً آپ کو بتاتے ہیں۔ 2023 میں تیفے جھیل میں مردہ پائی جانے والی ڈولفنز کے پیچھے سائنسدانوں نے ایل نینو ایفکٹ کو وجہ بتایا جہاں سمندر کا درجہ حرارت 44 ڈگری تک پہنچ گیا جس سے وہاں کی مخلوقات موافق نہیں تھیں۔
ایل نینو کی اصطلاح 16ویں صدی میں سامنے آئی کہ جب پیرو کے ماہی گیروں نے سمندر کو غیر معمولی حد تک گرم پایا۔ اس امر کو ہسپانیوی زبان میں ایل نینو یعنی ’جیسس کا بچہ‘ کہا جاتا ہے۔
ایل نینو سمندر میں آنے والی ہیٹ ویو کی مانند ہے جس میں بڑی تعداد میں مخلوقات کو گرمی سے نقصان پہنچتا ہے اور ساحلی علاقوں میں قحط سالی ہوتی ہے جس کی وجہ سے زراعت میں نمایاں کمی واقع ہوتی ہے۔ یہ لہر پیسیفک اوشن میں ٹریک کی گئی ہے۔ ماہرین فی الوقت کوئی خیال ظاہر نہیں کر رہے کہ یہ دنیا بھر کے سمندروں میں آئے گی لیکن اس امر کو ناممکن بھی قرار نہیں دیا جاسکتا۔
سمندری حیات پر زیادہ درجہ حرارت کے اثرات
موسمیاتی تبدیلی کے باعث سمندری درجہ حرارت میں اضافے سے بڑی تعداد میں سمندری نباتیات اور حیاتیات کو نقصان پہنچ رہا ہے جس کے اثرات ہم پاکستان سمیت دنیا بھر کے سمندر میں دیکھ رہے ہیں۔ کراچی کے نجی کالج کی سینیئر پروفیسر اسما تبسم سے بات کی جنہوں نے اپنے پی ایچ ڈی مقالے میں سمندری مخلوقات پر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کا قریب سے جائزہ لیا ہے۔ میں نے جب ان سے کورل ریفس کو پہنچنے والے نقصانات پر سوال کیا تو انہوں نے بتایا، ’سمندری درجہ حرارت میں اضافہ یقینی طور پر نباتیات کو نقصان پہنچاتا ہے۔ سمندری پودے 90 فیصد آکسیجن فضا کو مہیا کرتے ہیں لیکن ان کی تباہی سے ماحولیات کو شدید خطرات لاحق ہیں۔‘
’ہر سمندر کا ایک اپنا مخصوص درجہ حرارت ہوتا ہے جس سے اس کی مخلوقات موافق ہوتی ہیں لیکن اگر اس میں غیرمعمولی اضافہ یا نقصان رپورٹ ہو تو پوری سمندری حیات اس کے نتائج کا سامنا کرتی ہے۔ کورل ریفس بھی ایک رینج پر درجہ حرارت میں تبدیلی کے عادی ہوتے ہیں لیکن جب درجہ حرارت میں غیرمعمولی اضافہ ہو تو ان کی بلیجنگ ہوتی ہے جس کے باعث وہ آہستہ آہستہ ختم ہوجاتے ہیں۔‘
وہ بتاتی ہیں کہ ’پاکستان میں سی ویڈ کی موجودگی کو بھی درجہ حرارت کی وجہ سے بڑے پیمانے پر نقصان پہنچا ہے لیکن یہاں ایک عنصر اہم ہے۔ سی ویڈ جسے ہم کھائی والا پودا بھی کہتے ہیں پتھروں میں اگتا ہے لیکن سمندری طوفانوں کی وجہ سے بھی یہ اپنی جڑ سے اکھڑ جاتا ہے جس سے ایکو سسٹم کو نقصان پہنچتا ہے۔ ایکو سسٹم کو نقصان کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کورل ریفس اور سی ویڈز جیسے پودے فوڈ چین میں اہم کردار کرتے ہیں جبکہ ان سے خوراک حاصل کرنے والی چھوٹی مخلوقات کو پودے کھانے کو نہیں ملیں گے تو اس کے اثرات چھوٹی سے بڑی پر نوعیت کی مچھلیوں پر مرتب ہوں گے۔‘
پاکستان میں سمندر میں بڑی تعداد میں سمندری نباتات کو نقصان پہنچ رہا ہے جسے توجہ نہ دے کر ہم بھی موسمیاتی تبدیلی کے سمندر پر پڑنے والے اثرات کا سامنا کر رہے ہیں۔
پاکستان کے دریا پر اثرات
ڈان میگزین میں شائع ہونے والے ایک مضمون کا یہاں میں ذکر کرنا چاہوں گی جس میں میر مرتضیٰ بھٹو کے بیٹے ذوالفقار علی بھٹو جونیئر آج کل سیو ڈولفنز کے نام سے ایک مہم چلا رہے ہیں، نے بتایا کہ کیسے درجہ حرارت میں اضافے سے سندھ کی سمندری مخلوقات کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ ’دریائے سندھ میں افسوس ناک طور پر ڈولفنز کو تیرنے کے لیے صرف ایک ہی چینل دستیاب ہے جس میں بھی 6 بیراج اور ایک ڈیم ان کے راستے میں رکاوٹ کی مانند موجود ہیں۔‘
'ہمارے ملک کی 60 فیصد ڈولفنز سندھ میں پائی جاتی ہیں۔ چونکہ یہ نشیبی علاقہ ہے اس لیے بالائی علاقوں میں آنے والی تبدیلیوں کی وجہ سے یہ ڈولفنز بھی متاثر ہوتی ہیں۔ یہاں تک کہ پانی کی سطح میں معمولی سی تبدیلی بھی بہت سے دریائی مخلوق کے لیے جان لیوا ثابت ہوسکتی ہے جبکہ یہ دریا کنارے رہنے والے لوگوں کو بھی متاثر کر سکتی ہے۔‘
اس بلاگ میں مزید بتایا گیا تھا کہ دریائے سندھ میں مختلف مقامات پر باڑ لگائے جانے کے باعث سندھ میں پانی کی سطح کم ہو رہے جس سے سندھ میں پائی جانے والی ڈولفنز کو اپنی بقا کے خطرات لاحق ہیں۔
ڈاکٹر علی توقیر شیخ بتاتے ہیں کہ دریا میں پانی کی سطح بلند ہونے سے انسان اور سمندری مخلوقات دونوں متاثر ہوتے ہیں جن کے باعث انسان تو ہجرت کرجاتے ہیں لیکن سمندری مخلوقات کی بڑی تعداد میں موت واقع ہوتی ہے جس میں آلودگی بھی کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔
عالمی سطح پر اس کی تازہ مثال ایمازون کے دریا میں ڈولفنز کی اموات ہیں جو کہ الارم ہیں کہ دنیا کے دیگر خطوں میں بھی اس طرح کے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
درجہ حرارت کم کیسے کیا جائے؟
سمندر حیات اور سمندر کو محفوظ بنانے کے لیے درجہ حرارت میں کمی کے لیے فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ کاربن کا اخراج کم کرنے کے لیے فوسل فیول کا استعمال روکنا اس سلسلے کی پہلی کڑی ہوگی لیکن ممالک ان نتائج سے آگاہ نہیں جو ابھی سے ترقی پذیر ممالک میں ظاہر ہو رہے ہیں۔ اگر استعمال نہ روکا گیا تو یہ سنگین رخ اختیار کرسکتے ہیں۔
سسٹینل فشنگ کے طریقے اپنا کر عام انسان اپنے طور پر کورل ریفس، مینگروز اور دیگر سمندری نباتیات کو پہنچنے والے نقصانات سے اجتناب کرسکتے ہیں کیونکہ سمندری نباتیات بڑی تعداد میں کاربن ڈائی آکسائڈ جذب کرنے کی ذمہ دار ہیں۔
آلودگی کم کر کے بھی ہم اپنے سمندروں کو محفوظ بنا سکتے ہیں جس کے حوالے سے ہمیں لوگوں کو شعور دینے کی ضرورت ہے۔
کوپ 29 سے قبل جاری ہونے والی ایجنڈے میں سمندری معاملات کے لیے مرکوز ادارے اوشن پویلین نے عہد کیا ہے کہ وہ تمام ممالک کی اس کانفرنس میں ماحولیات کو بہتر بنانے کے لیے سمندر کے کردار کے حوالے سے شعور اجاگر کریں گے جبکہ دو ہفتوں پر مشتمل اس ایونٹ میں سمندر کی اہمیت اور اسے محفوظ بنانے کے لیے بات چیت کے 50 سیشنز کا انعقاد کیا جائے گا۔ جہاں مختلف ممالک کے نمائندگان کو موقع ملے گا کہ وہ سمندر کے لیے اپنی مسترکہ کوششیں کریں تاکہ ماحولیات کو لاحق خطے سے نمٹنے کی جانب سے مؤثر قدم اٹھائے جاسکیں۔
اوشن وارمنگ باکو میں پاکستان کا فارمولا ایجنڈا نہیں لیکن پاکستان نے مالدیپ سمیت دیگر ممالک کے ساتھ گلیشیئرز کے مسئلے کو اجاگر کرکے بالواسطہ طور پر سمندر درجہ حرارت میں اضافے پر بھی بات کی ہے۔
یہ وہ تمام ابتدائی اقدامات ہیں جنہیں فوری طور پر لینے کی ضرورت ہے جبکہ سمندر کے درجہ حرارت میں اضافے کو سنگین مسئلے کے طور پر نہیں لیا گیا تو انسان اپنے فعل سے صاف ہوا فراہم کرنے کا سب سے اہم قدرتی ذریعہ بھی تباہ کردے گا۔ وقت کا تقاضا ہے کہ انسان اپنی غلطیوں کا فوری طور پر ازالہ کرے اور محفوظ سمندر کے لیے مؤثر اقدامات لے۔