ماؤنٹ ایورسٹ پر ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات، برف میں دبی لاشیں دِکھنے لگیں
ماؤنٹ ایورسٹ پر ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات، برف میں دبی لاشیں دِکھنے لگیں
جمعرات 27 جون 2024 8:18
ماؤنٹ ایورسٹ سمیت دیگر دو بلند پہاڑوں سے 5 لاشیں واپس لانے میں کامیابی ہوئی۔ فوٹو: اے ایف ہی
دنیا کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ بھی ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کی زد میں ہے جس کے نتیجے میں برف کی تہہ کم ہوئی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی یہاں دبی کوہ پیماؤں کی لاشیں بھی دکھنے لگی ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق رواں سال چند کوہ پیماؤں کا عزم ماؤنٹ ایورسٹ کو سر کرنے کے بجائے اس کی صفائی اور یہاں دفن لاشوں کو واپس لانا تھا۔
نیپال کی فوج میں تعینات میجر ادیتیا کرکی ماؤنٹ ایورسٹ کی صفائی کی اس مہم کی قیادت کر رہے ہیں۔ ان کی ٹیم میں 12 فوجی اہلکاروں کے علاوہ 18 کوہ پیما بھی شامل ہیں۔
ماؤنٹ ایورسٹ کے ساتھ جڑے ہمالیہ کے لوتسے اور نوپٹسے پہاڑ بھی نیپالی ٹیم کے مشن کا حصہ ہیں۔
یہ مشن اب تک پانچ لاشیں نکالنے میں کامیاب ہو چکا ہے جو یقیناً ایک مشکل اور خطرناک کام ہے۔
دبی ہوئی لاشوں کو نکالنے کے لیے ٹیم کو برف ہٹانے میں کئی گھنٹے لگ گئے، پگھلانے کے لیے گرم پانی کا بھی استعمال کرنا پڑا۔
برف سے ڈھکی ہوئی ایک لاش کو نکالنے میں کوہ پیماؤں کو 11 گھنٹے لگ گئے۔
میجر ادتیا کرکی نے بتایا کہ زمین کا درجہ حرارت بڑھنے کے نتیجے میں ماؤنٹ ایورسٹ پر برف کی تہہ کم ہوئی ہے اور کئی سالوں سے برف میں دبی لاشیں اور کوڑا کرکٹ اب دکھائی دینا شرع ہو گیا ہے۔
اس مہم جوئی میں شامل کوہ پیما شیرنگ جنگن کا کہنا ہے کہ یہ انتہائی مشکل مشن ہے، لاشوں کو نکالنا ایک علیحدہ چیلنج ہے اور انہیں نیچے اتارنا ایک اور مرحلہ ہے۔
انہوں نے بتایا کہ کچھ لاشیں اب بھی تقریباً اسی حالت میں دکھائی دیں جیسا کہ موت کے وقت تھیں، پورے لباس میں ملبوس اور تمام آلات ان کے ساتھ تھے۔
اتنی بلندی سے لاشوں کو واپس لانا مشکل ہی نہیں بلکہ مہنگا مشن بھی ہے جس میں ہزاروں ڈالر خرچ ہوتے ہیں اور ایک لاش کو لانے کے لیے 8 ریسکیو اہلکاروں کی ضرورت ہوتی ہے۔
سنہ 1920 سے ماؤنٹ ایورسٹ کو سر کرنے کی مہم کے آغاز کے بعد سے 300 افراد نے اس پہاڑ کی چوٹی تک پہنچنے کی کوشش میں جان کی بازی ہاری جبکہ 8 کوہ پیما رواں سیزن میں ہلاک ہوئے۔
تاہم دنیا کے بلند ترین اس پہاڑ پر بہت سی لاشیں ابھی بھی دبی ہوئی ہیں اور کچھ کہیں گہرائی میں گر کر ہمیشہ کے لیے لاپتہ ہو گئی ہیں جبکہ کچھ کے نشانات واضح ہیں۔
ادتیا کرکی کا کہنا ہے کہ مہم جوئی کے دوران کسی کوہ پیما کی لاش راستے میں دکھائی دینے سے بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اکثر لاشیں ’ڈیتھ زون‘ میں دبی ہوئی ہیں جہاں ہوا اور آکسیجن کا تناسب کمی ہونے سے کوہ پیماؤں کے بیمار ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
میجر کرکی نے ریسکیو مشن کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ان لاشوں کو واپس لانے کی ہر ممکن کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔
’اگر ہم نے انہیں چھوڑنا شروع کر دیا تو ہمارے پہاڑ قبرستانوں میں تبدیلی ہو جائیں گے۔‘
ان لاشوں کو ایک بیگ میں لپیٹ کر پلاسٹک کے پھٹے پر ڈال کر گھسیٹا جاتا ہے۔
دنیا کے بلند پہاڑوں کی صفائی کے اس مشن کا بجٹ 6 ہزار ڈالر ہے جس میں171 نیپالی گائیڈز اور پورٹرز کی خدمات حاصل کی گئیں جو 11 ٹن کوڑا کرکٹ واپس لانے میں مدد فراہم کر رہے ہیں۔
ان پہاڑوں کو سر کرنے کی مہم جوئی کے دوران کوہ پیما اپنے خیمے، آلات، گیس کے خالی سلینڈر اور انسانی فضلہ بھی وہیں چھوڑ آتے ہیں۔