Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وہ بیان کیوں دیا جائے جو بعد میں غلط ثابت ہو؟ عامر خاکوانی کا کالم

متعدد پی ٹی آئی رہنماؤں نے احتجاج کے بعد کارکنوں کی اموات سے متعلق متضاد دعوے کیے تھے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
گذشتہ روز میڈیا پر ایک پولیس افسر کا بیان چل رہا تھا، جس میں انہوں نے تحریک انصاف پر سنگین الزامات لگاتے ہوئے یہ دعویٰ کیا کہ اس پارٹی کے احتجاجی کارکنوں نے ایک لاطینی امریکی ملک کے بنائے گئے آنسو گیس شیلز استعمال کیے جو مقامی سطح پر موجود شیلز سے تین گنا زیادہ موثر تھے، احتجاج کرنے والے ایک خاص وائرلیس نیٹ ورک استعمال کرتے رہے وغیرہ وغیرہ۔ ہر جگہ اسی ضلعی پولیس افسر کا بیان چلتا رہا۔
اتوار کی شام ایک ٹاک شو میں شریک ہوا تو وہاں میزبان نے سوال کیا، دیکھیں یہ جو تحریک انصاف کے بارے میں حقائق سامنے آئے ہیں، اس کی روشنی میں آپ کیا کہتے ہیں؟ میں نے عرض کیا، پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ اسے حقائق نہیں کہہ سکتے ہیں، اسے پولیس کا دعویٰ یا الزام کہیں۔ حقائق تو حتمی نوعیت کی چیز ہوتی ہے اور ابھی تو یہ صرف ایک فریق کا موقف ہے، جس کی دوسرا فریق تردید کر رہا ہے۔
یہ الزامات اگر عدالت میں ثابت ہوجائیں تب ان کی پوزیشن زیادہ مستحکم ہوجائے گی، تب انہیں حقائق کہہ سکتے ہیں۔
نیوز اینکر کو یاد دلایا کہ ایسے الزامات اور دعوے ماضی میں دیگر جماعتوں اور رہنماؤں پر بھی لگتے رہے۔ رانا ثنااللہ پر بھی منشیات سمگلنگ کا نہ صرف مقدمہ ہوا، بلکہ اس میں کئی کلو منشیات کی برآمدگی بھی ظاہر کی گئی۔ تب بھی اسی طرح کے دعوے کیے گئے بلکہ تحریک انصاف کے ایک وزیر نے تو ان کی صداقت کے لیے قسم بھی کھا لی تھی۔ آج ہم سب جانتے ہیں کہ وہ ایک جعلی اور بے بنیاد کیس تھا۔
مجھے یاد ہے کہ اخبار میں کام کرنا شروع کیا تو ابتدا ہی میں سینیئرز نے یہ سکھایا کہ کبھی کسی یک طرفہ موقف کو نہیں چھاپنا، ہمیشہ دوسری طرف کا موقف لینا ہے۔ الزام کو الزام ہی رہنے دینا ہے، اسے حقیقت یا حقائق کا نام نہیں دینا۔ اخبارات میں مبینہ طور پر کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں کہ اس واقعے میں مبینہ طور پر فلاں کے ملوث ہونے کا شبہ ہے۔
ہمیں یہ بھی کہا جاتا ایسی خبر نہ چھاپی جائے جس کی کل تردید شائع کرنا پڑے اور ہمیشہ یہ یاد رکھا جائے کہ اخبار نے کل اور پرسوں بھی شائع ہونا ہے۔ آج کے جوش میں اپنے کل کا بیڑا غرق نہ کیا جائے وغیرہ وغیرہ۔
مجھے یاد ہے کہ لاہورکے ایک بڑے اخبار کے نیوزروم میں بطور سب ایڈیٹر کام کر رہا تھا۔ سٹی ڈیسک پر ڈیوٹی تھی، رات گئے کرائم رپورٹر نے خبر دی کہ فلاں شخص کو چار یا پانچ بجے صبح پھانسی دی جائے گی۔ ایک ساتھی سب ایڈیٹر نے وہ خبر بنائی، انہوں نے سوچا کہ جب تک اخبار لوگوں تک پہنچے گا، پھانسی ہو چکی ہوگی، انہوں نے سرخی میں لکھ دیا کہ فلاں کو پھانسی دے دی گئی۔ اگلے روز ہنگامہ برپا تھا کیونکہ آخری لمحوں میں پھانسی رک گئی تھی۔

بیرسٹر گوہر نے کہا کہ احتجاج میں 12 ہلاکتیں ہوئیں۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

ورثا نے اخبار کی خبر پر احتجاج کیا۔ ایڈیٹر کے سامنے پیشی ہوئی، سب ایڈیٹرنے اپنا موقف بیان کیا کہ میں نے تو لوگوں کی سہولت کے لیے یہ سرخی بنائی کہ صبح تک ایسا ہو گیا ہوگا۔ ایڈیٹر کے الفاظ مجھے یاد ہیں، تلخی سے انہوں نے کہا کہ ’آپ ہمیشہ یہ یاد رکھیں کہ ہم پیش گوئیاں نہیں کرتے اور نہ ہی جنتری کا کاروبار کرتے ہیں۔ جو واقعہ ابھی ہوا نہیں، اسے کیسے فرض کر کے لکھ دیں؟ جب ہوجائے گا تو خبر آجائے گی، خواہ اگلے روز ہی سہی۔ اہمیت اس کی ہے کہ ہم وہ خبر نہ دیں جو کل غلط ثابت ہو۔‘
آج کل ہمارے میڈیا میں یہ احتیاط نہیں برتی جا رہی اور سیاستدان تو کچھ زیادہ ہی غیر ذمہ دار ہو گئے ہیں۔ منہ بھر کر وہ وہ بات کہہ دی جاتی ہے جو سننے میں بھی ناقابل یقین لگے اور صرف ایک دو دنوں ہی میں اس کی تردید ہو جائے، وہ جھوٹی ثابت ہوجائے۔ ایسی کئی مثالیں ہیں۔
 قومی اسمبلی کے سابق ڈپٹی سپیکر ہیں قاسم سوری، بلوچستان سے تحریک انصاف کے رکن اسمبلی تھے، اس بار الیکشن نہیں لڑے، پاکستان سے باہر بیٹھے ہیں۔ انہوں نے اسلام آباد احتجاج کے تناظر میں اچانک ہی ٹویٹ داغ دیا کہ عمران خان کی حالت ٹھیک نہیں، ان کے سیل کے پاس ایسا زہریلا سپرے کیا گیا کہ طبیعت ٹھیک نہیں اور ایسی چیزیں کھلائی جا رہی ہیں جن سے ان کا ذہنی توازن بگڑ جائے۔ قاسم سوری کا یہ بیان غیر ذمہ داری کی بدترین مثال ہے۔ صرف دو دن گزرے اور یکے بعد دیگرے تحریک انصاف کے کئی رہنماؤں نے اس کی تردید کرتے ہوئے انہیں جھوٹا کہہ دیا۔
پہلے بیرسٹر سیف نے یہ کہا، پھر شیر افضل مروت نے قاسم سوری کے بیان کو غلط قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’ہم اسلام آباد میں بیٹھے ہیں، ہمارے پاس اطلاع نہیں اور جو ہزاروں میل دور بیٹھا ہے، اس نے کیسے یہ بات کہہ دی؟‘
 گذشتہ روز بیرسٹر گوہر نے واضح الفاظ میں اس کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ خان صاحب کی طبیعت ٹھیک ہے، ایسا کوئی زہریلا سپرے ان کے سیل کے پاس نہیں ہوا اور انہیں اڈیالہ سے کسی اور جگہ شفٹ بھی نہیں کیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ قاسم سوری کے پاس اب کیا رہ گیا؟
  شاعر نے کہا تھا، دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی۔ یہ بات غیر ذمہ دارانہ بیانات کے حوالے سے حکمران جماعت ن لیگ اور اپوزیشن جماعت تحریک انصاف دونوں پر فٹ آتی ہے۔

26 نومبر کو پی ٹی آئی کے کارکنان ڈی چوک پہنچے تھے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

 ن لیگ کے خواجہ آصف نے اگلے روز بیان داغا کہ یہودی لابی اپنے اثاثے کو بچانے کے لیے متحرک ہو گئی۔ خواجہ صاحب نے یہ بات جمائمہ خان کے بھائی زیک گولڈ سمتھ کے بیان پر کہی تھی۔ 
معمولی سی عقل وفہم رکھنے والا آدمی بھی یہ جان سکتا ہے کہ زیک گولڈ سمتھ عمران خان کا برادر نسبتی رہا ہے، دونوں میں دوستی اور ذاتی تعلق رہا ہے۔ عمران خان کے حق میں زیک گولڈ سمتھ کا بیان دینا ایک منطقی اور قابل فہم بات ہے۔ ویسے بھی طاقتور ممالک کی لابی یوں اکا دکا فرد کی محتاج نہیں ہوتیں اور وہ اگر کچھ کرنا چاہیں تو کسی کو اندازہ تک نہیں لگنے دیتیں۔
اسی طرح وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ کا یہ بیان کہ مراد سعید مسلح جتھوں کے ساتھ ڈی چوک پہنچا تھا اور یہ کہ مراد سعید اس وقت چیف منسٹر ہاؤس پشاور میں مقیم ہیں۔ یہ بھی ایک بغیر ثبوت کے دیا گیا بیان ہے۔ مراد سعید اگر پولیس سے بچتا پھر رہا ہے تو وہ بے وقوف ہے کہ ڈی چوک آنے کا رسک لے جس میں اس کی گرفتاری کے امکانات قوی ہوں۔
دوسری طرف تحریک انصاف کا یہ بیان بھی کمزور تھا کہ فورسز کے سنائپرز نے ان کے کارکنوں کو گولیاں ماریں اور بے شمار اموات ہوئیں۔ ستم ظریفی یہ ہوئی کہ ہر رہنما نے اپنے فگرز جاری کیے، لطیف کھوسہ نے ٹی وی پر بیٹھ کر ڈھائی تین سو اموات کی بات کہہ دی۔
بیرسٹر گوہر نے عمران خان سے ملاقات کے بعد میڈیا کو بتایا کہ ’ہم نے خان صاحب کو 12 اموات کی بات کہی ہے اور دو ڈھائی سو اموات والی بات غلط ہے۔ بیرسٹر گوہر کے اس واضح بیان کے بعد تحریک انصاف کے مختلف رہنماؤں اور سوشل میڈیا ایکٹوسٹس کے پاس کیا رہ گیا؟‘
ماضی میں بھی ہم نے دیکھا کہ نہ صرف عمران خان نے ایسے بے بنیاد بیانات دیے جن میں پینتیس پنکچر وغیرہ شامل ہیں بلکہ تب تحریک انصاف کے مخالف مولانا فضل الرحمان نے بھی عمران خان کو برا بھلا کہا۔ آج جب حالات بدل گئے ہیں تو وہی مولانا یہ بات نہیں کرتے۔ جبکہ عمران خان جو مولانا پر سخت ذاتی تنقید کرتے تھے، اب وہ بھی سب کچھ بھول گئے ہیں۔
ایک زمانے میں عمران خان نے پنجاب کے ایک اہم سیاستدان کو پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو کہا اور پھر حالات کے جبر نے خان صاحب کو مجبور کیا کہ وہ اسی سیاستدان کو سیپیکر اور وزیراعلٰی نامزد کریں۔ اس سے تھوڑا اور پیچھے جائیں تو نوے کے عشرے میں محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف ایک دوسرے کو ملک دشمن اور سکیورٹی رسک تک کہتے رہے، پھر مشرف کے مارشل لا نے دونوں کو ساتھ بیٹھنے پر مجبور کر دیا۔

کوئی بھی خبر آپ تک پہنچائی جا رہی ہے تو پہلے اس کا خود تجزیہ کر لیں (فوٹو: دی اکانومسٹ)

ان تمام واقعات سے سبق یہی ملتا ہے کہ وہ بے بنیاد، پروپیگنڈہ پر مبنی بات نہ کہی جائے جو کل کوجھوٹی ثابت ہو۔ ایسا بیان نہیں دینا چاہیے جس کے لیے ہمارے پاس ٹھوس ثبوت نہ ہوں۔ اپنے آج کے مخالف پر تنقید کرتے ہوئے یہ ذہن میں ضرور رکھیں کہ کل کوسیاسی مصلحت ہمیں دوست بھی بنا سکتی ہے۔
جہاں تک میڈیا اور صحافیوں کا تعلق ہے، انہیں سرکاری پریس ریلیزوں اور واٹس ایپ گروپوں میں آنے والی خبروں، لائن کو اندھا دھند فالو نہیں کرنا چاہیے۔ کوئی بھی خبر آپ تک پہنچائی جا رہی ہے تو پہلے اس کا خود تجزیہ کر لیں، اسے کاؤنٹر چیک بھی کر لیا جائے۔
صحافی خبر کے متلاشی ہوتے ہیں، اس لیے وہ سورسز ڈیویلپ کرتے ہیں، یہ سب ٹھیک ہے، مگر ایسا کرتے ہوئے صحافیوں کو خود استعمال نہیں ہوجانا چاہیے۔ کم از کم یہ بنیادی اصول ہی یاد رکھیں کہ اگر کوئی پولیس افسر، انتظامیہ کا اہلکار یا حکومتی وزیر الزام لگاتا ہے تو وہ حقائق نہیں بن جاتے، وہ صرف ایک سائیڈ کا موقف یا دعویٰ ہی ہے۔ کسی واقعے، تنازع پر اگر دو انتہائی مختلف موقف موجود ہوں توپھر تنازع کا فیصلہ عدالت یا جوڈیشل کمیشن ہی کرسکتا ہے، میڈیا نہیں۔ 

شیئر: