اس افراتفری کی وجہ عراق اور کویت کے بیچ چھڑنے والی جنگ تھی جس کے بعد خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ اس کے اثرات خطے کے دوسرے ممالک پر بھی مرتب ہوں گے اور یہ جنگ دبئی کی اس خیرہ کن گولڈ مارکیٹ میں زوال لے آئے گی۔
شیخ شمیم کے دیکھتے دیکھتے کئی ارب پتی سناروں نے چند روز میں ہی اپنا سونا پگھلا کر دوسرے ملکوں بالخصوص یورپ منتقل کر دیا۔
سنہ 1976 کے بعد یہ پہلا موقع تھا جب شیخ محمد شمیم نے سونے کے نرخ میں بڑا اضافہ دیکھا۔ وہ دبئی میں سونے کے کاروبار سے وابستہ تھے لیکن اس سے قبل انہوں نے اس کی قیمت میں اتنا بڑا اضافہ کبھی نہیں دیکھا۔
سونے کو پگھلا کر اس کے زیورات بنانا اور انہیں فروخت کرنا شیخ شمیم کا خاندانی کام ہے جو ان کے آباؤ و اجداد کئی زمانوں سے برصغیر کے تاریخی شہر دہلی میں کرتے آئے ہیں۔
1947میں قیام پاکستان کے بعد ان کا خاندان کراچی منتقل ہوا تو انہوں نے یہاں بھی اپنا کام جاری رکھا اور بعد ازاں اس کاروبار کو دبئی تک بڑھا دیا۔
عراق اور کویت کی جنگ کی وجہ سے کچھ عرصہ سونے کی قیمتیں غیرمستحکم ہوئیں لیکن پھر حالات معمول پر آ گئے اور معمولی اتار چڑھاؤ کے ساتھ ان کا کاروبار چلتا رہا۔
سنہ 1999میں شیخ شمیم نے پاکستان واپس آنے کا فیصلہ کیا اور یہاں سونے کے زیورات کے کاروبار کا ایک اہم حصہ بن گئے۔
اس وقت وہ پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی جیولرز ایسوسی ایشن کے صدر ہیں اور پاکستان کے علاوہ دنیا بھر میں ہونے والی سونے کی تجارت پر گہری نظر رکھتے ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ سال 2005 سے پاکستان میں سونے کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہونا شروع ہوا ہے۔ جب ایک تولہ سونے کی قیمت پہلی مرتبہ 80 ہزار پر پہنچی اور ان کو اندازہ ہونے لگا کہ یہ جلد ایک لاکھ روپے کو چھو لے گی تو انہیں اس خیال سے ہی جھرجھری آنا شروع ہو جاتی۔ انہیں لگتا کہ اس کے بعد کاروبار کرنا ناممکن ہو جائے گا۔
آج پاکستان میں سونے کی فی تولہ قیمت لک بھگ دو لاکھ 75 ہزار روپے سے دو لاکھ 90 ہزار کے قریب گردش کرتی ہے اور شیخ شمیم کے خدشات کافی حد تک درست ثابت ہو رہے ہیں۔
ان کے مطابق پاکستان میں 15 فیصد سنار اپنا کاروبار چھوڑ چکے ہیں اور ان میں سے کئی شدید مالی دباؤ کا شکار ہیں جبکہ سونے کے زیورات بنانے والے پیشہ ور کاریگروں کی ایک بڑی تعداد مفلوک الحالی کا سامنا کر رہی ہے کیونکہ سونے کی قیمتوں میں بے پناہ اضافے کی وجہ سے لوگ اس کو خرید نہیں پا رہے اور کاروبار تباہ ہو چکے ہیں۔
’صرف اسلام آباد کی ایک مارکیٹ سے کم از کم چھ سنار اپنا کاروبار بند کر چکے ہیں اور اس وقت اتنے برے مالی بحران کا شکار ہیں کہ بازار میں کسی کا سامنا نہیں کر پا رہے۔‘
عام طور پر سونے اور زیورات کا کاروبار کرنے والے تاجروں کو امیر ترین تصور کیا جاتا ہے اور معاشرے میں یہ عمومی تاثر ہے کے سنار اور زیورات سے جڑے دوسرے لوگ مالا مال ہوتے ہیں اور پر تعیش زندگی گزارتے ہیں۔
تاہم شیخ شمیم کے مطابق اس وقت پاکستان کے بیشتر سنار اپنا خرچ چلانے کے لیے کئی دوسرے شعبوں میں سرمایہ کاری کا سہارا لے رہے ہیں، اور جو اس کی سکت نہیں رکھتے ان کا کاروبار روبہ زوال ہے کیونکہ مارکیٹ میں مہنگے سونے اور زیورات کے خریدار موجود نہیں۔
’انہی حالات کی وجہ سے کئی خاندان کاروبار بند کر کے کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو گئے ہیں کیونکہ وہ خریداروں کی عدم موجودگی میں مہنگا سونا خریدنے کے قابل نہیں رہے۔‘
شیخ شمیم نے یہ جملہ کہنے کے بعد اسلام آباد کی معروف جناح سپر گولڈ مارکیٹ میں واقع اپنی دکان سے باہر نظر ڈالی تو وہاں مغرب کے بعد تاریکی اپنا رنگ جما چکی تھی اور بڑے بڑے برقی بلب اس تاریکی کو روشنی میں بدلنے کے لیے کوشاں تھے۔
آج سے کچھ سال پہلے یہ جھلمل کرتی گولڈ مارکیٹ زیورات کے خریداروں کا ایک مصروف مرکز ہوتی تھی تاہم اب اس میں قطار در قطار لگائی گئی سناروں کی دکانیں بیشتر اوقات خالی ہی رہتی ہیں۔
’زیورات بنانے والے 70 فیصد کاریگر کام چھوڑ گئے‘
اسلام آباد سے تقریباً 1500 کلومیٹر دور ساحل سمندر پر واقع پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی، جہاں تجارتی سرگرمیاں عروج پر رہتی ہیں، میں بھی حالات مختلف نہیں ہیں۔
سونے کے تاجر تو ایک طرف اس کی قیمت میں اضافے کے سب سے زیادہ متاثرین زیورات بنانے والے کاریگر ہیں جن میں سے کئی کے گھروں کے چولہے بجھ گئے ہیں۔
چائنہ شاپنگ مال میں سونے کے زیورات بنانے اور بیچنے کا کام کرنے والے شہزاد محمد ذوالفقار بھی اس بحران کا نشانہ بنے ہیں اور ان کے مطابق ان کے شعبے کے 70 فیصد لوگ اب یہ کام چھوڑ چکے ہیں کیونکہ اس میں اب صرف نقصان ہی نقصان ہے۔
خود شہزاد محمد کے ساتھ اس کاروبار میں اتنا برا ہوا کہ وہ مریض بن گئے اور تین سال تک بستر سے اٹھ نہیں سکے۔ اب وہ یہ کاروبار کرنا تو دور کی بات اس کے بارے میں سوچنے کی ہمت بھی نہیں رکھتے۔
شہزاد محمد نے میٹرک کے بعد سونے کے زیورات بنانے کا کام سیکھا تھا اور والد کو ریٹائرمنٹ پر ملنے والی رقم اور کچھ دوستوں اور رشتہ داروں سے قرض لے کر سونے کے زیورات بنانے اور بیچنے کا کام شروع کیا۔
اگرچہ ان کی مشکلات کا آغاز اس وقت ہوا جب ان کا ایک کاروباری شراکت دار ان کا سونا لے کر بھاگ گیا لیکن اس کے بعد وہ اس کی آسمان چھوتی قیمتوں کی وجہ سے کبھی یہ نقصان پورا نہیں کر سکے اور کاروبار دوبارہ جما نہیں سکے۔
انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ انہوں نے 2016 میں 14 لاکھ روپے کی رقم اکٹھی کر کے سونے کے زیورات بنانے کی ورکشاپ لگائی تھی اور زیورات بنانے کے ساتھ ساتھ فروخت کرنے کا کام شروع کیا تھا۔
لیکن ان کے کاروبار کے آغاز سے ہی سونے کی قیمتوں میں اضافہ ہونے لگا اور ہر بار خام سونا خریدتے ہوئے انہیں پہلے سے زیادہ رقم ادا کرنا پڑتی۔
شہزاد محمد جیسے تیسے کر کے اس شعبے میں اپنا وجود برقرار رکھنے کی کوشش کر رہے تھے لیکن انہیں ایک بڑا دھچکہ اس وقت لگا جب ان کا ایک کاروباری شراکت دار ان کا 49 لاکھ کا سونا اور زیورات لے کر غائب ہو گیا۔ اور اس میں سے بڑی مقدار اس سونے کی تھی جس کی ادائیگی شہزاد نے دوسرے بڑے تاجروں کو کرنا تھی۔
اس کے ساتھ ہی سونے کی قیمت میں بے پناہ اضافہ ہو گیا اور شہزاد کے پاس اتنی رقم نہیں رہی کہ وہ مزید خریداری کر کے کاروبار جاری رکھ سکیں۔
شہزاد اپنے چوری شدہ سامان کی بازیابی کے لیے پولیس کے پاس گئے تو انہیں متعلقہ پولیس افسران نے کہا کہ اس کے لیے انہیں بھاری رشوت دینا پڑے گی، لیکن ان کے پاس اس کے لیے رقم نہیں تھی۔
اس دھوکے کے بعد شہزاد مارکیٹ کے تاجروں، رشتہ داروں اور دوستوں کے مقروض ہو گئے۔ حتٰی کہ ان کے سگے بھائی جن سے انہوں نے قرض لے رکھا تھا اس کی عدم ادائیگی پر ان سے ناراض ہو کر لا تعلق ہو گئے۔ شہزاد ذہنی دباؤ کا شکار ہو کر بستر سے لگ گئے اور چلنے پھرنے کے قابل بھی نہیں رہے۔
تین سال بعد اب شہزاد کی صحت کچھ بہتر ہوئی ہے لیکن وہ زیورات بنانے کے لیے سونے میں پیسہ لگانے کے قابل اب بھی نہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’سونے کے زیورات اب کوئی خریدتا نہیں اور جو بڑے تاجر آپ سے یہ زیورات لیتے ہیں وہ پیسے ادا نہیں کرتے، ان سے رقم حاصل کرنے کے لیے ان کے پیچھے بھاگنا پڑتا ہے، ان کی منتیں کرنا پڑتی ہیں اور اس چکر میں آپ کا مزید نقصان ہو جاتا ہے۔‘
شہزاد اب گزر بسر کے لیے دیہاڑی پر مختلف مزدوریاں کرتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ آج سے آٹھ سال پہلے ان کے ساتھ جیولری کا کام کرنے والے 70 فیصد کاریگر بھی اب کوئی اور مزدوری کر کے گھر چلاتے ہیں۔
راولپنڈی کے نعیم اختر (فرضی نام) کی کہانی بھی زیادہ مختلف نہیں۔
وہ اپنے بھائی کے ساتھ شراکت داری میں جیولری شاپ چلاتے تھے۔ لیکن گذشتہ کئی سالوں سے سونے کی قیمتوں میں عدم استحکام کی وجہ سے ذہنی بیماری کا شکار ہو کر بستر سے جا لگے۔
اب وہ کاروبار چلانے کے قابل نہیں رہے اور ان کے گھر کے خرچ کا سارا بوجھ بھی ان کے بھائی کو اٹھانا پڑ رہا ہے۔
’عالمی حالات بہتر نہ ہوئے تو پاکستان میں فی تولہ سونا تین لاکھ تک جا سکتا ہے‘
شیخ محمد شمیم کے مطابق پاکستان میں سونے کی قیمتیں بین الااقوامی حالات سے جڑی ہیں۔
’دنیا میں امریکہ، چین، انڈیا اور روس میں زیادہ سے زیادہ سونا ذخیرہ کرنے کا مقابلہ چل رہا ہے جس کے اثرات بین الااقوامی مارکیٹ پر پڑتے ہیں۔ پاکستان کی مارکیٹ امریکہ، برطانیہ، سنگا پور اور دبئی کی مارکیٹوں کے براہ راست اثر میں ہے اور وہاں قیمت میں ذرا سا اضافہ یہاں کی مارکیٹ پر بہت گہرا اثر ڈالتا ہے۔‘
’پھر جب دنیا میں کوئی جنگ چھڑتی ہے یا کوئی بڑی خبر آتی ہے تو تب بھی سونے کی قیمت اوپر جاتی ہے۔ گذشتہ کئی سال سے روس، یوکرین اور اسرائیل، فلسطین کی جنگوں کی وجہ سے جیولری مارکیٹ بھی دباؤ میں ہے اور اس کی قیمتیں اوپر ہی اوپر جا رہی ہیں۔‘
شیخ شمیم سمجھتے ہیں کہ اگر عالمی حالات میں مثبت تبدیلی رونما نہ ہوئی تو سونے کی فی تولہ قیمت تین لاکھ روپے تک جاسکتی ہے۔
’سونے کی قیمت میں بہتری پراپرٹی سیکٹر کی بحالی سے مشروط‘
راولپنڈی میں جیولری کے ایک بڑے تاجر محبوب علی کے مطابق جہاں پاکستان میں سونے کی قیمت عالمی حالات کی وجہ سے بڑھتی ہے وہیں اس پر مقامی حالات اور حکومتی فیصلے بھی براہ راست اثر انداز ہوتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’پاکستان میں کورونا کی وجہ سے سونے کی قیمتوں میں بڑا اضافہ ہوا اور اس کے بعد یہ پھر کم نہیں ہوئیں۔ پھر یہ اس وقت بڑھیں جب کچھ عرصہ پہلے سرمایہ کاروں نے پراپرٹی اور دوسرے شعبوں سے سرمایہ نکال کر بڑی مقدار میں سونا خرید لیا۔‘
’اس وقت پاکستان میں زمین اور مکان بکنا اور کاروبار بند ہو گئے ہیں جس کی وجہ سے لوگوں نے اپنا سرمایہ پراپرٹی سے نکال کر سونا خرید لیا ہے کیونکہ اس کو محفوظ اور اچھی سرمایہ کاری سمجھا جاتا ہے۔ لوگ اس لیے بھی سونا خریدتے ہیں کیونکہ اس کی کوئی رسید نہیں ہوتی اور یہ ٹیکس حکام کے ریکارڈ میں نہیں آتا، نتیجتاً مارکیٹ میں اس کے نرخ بڑھ جاتے ہیں اور یہ عام آدمی کی پہنچ سے دور ہو جاتا ہے۔‘
محبوب علی نے حکومت کو تجویز دی کہ سونے کی قیمتیں کم کرنے کے لیے ایک ریگولیٹری اتھارٹی بنائی جائے جو نرخ پر نظر رکھے اور اس کی منظوری دے۔
’اس کے ساتھ ساتھ پراپرٹی اور تعمیرات کی صنعت کے علاوہ دیگر شعبوں کی بحالی کے لیے بھی فوری اقدامات کیے جائیں تاکہ سونے کی قیمت بہتر ہو اور دوسرے کاروباروں میں بھی سرمایہ کاری ہو۔‘
’سونے کے نیکلیس، چوڑیاں اور جھمکے خریدنے والی خواتین اب ٹاپس تک محدود‘
اسلام آباد کی جناح سپر مارکیٹ میں شیخ شمیم کی دکان کے ساتھ شیخ ایاز گاہکوں کے منتظر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اب ان کے پاس خریدار بہت کم آتے ہیں اور جو آتے ہیں وہ خریداری بہت کم کرتے ہیں۔
’اگر پہلے کوئی 20 تولے سونا خریدتا تھا تو وہ اب 10 تولے خریدتا ہے۔ حالات یہ ہیں کہ جس نے اپنی بڑی بیٹی کو شادی پر 10 تولے سونے کے زیورات بنوا کر دیے اب اس کی اتنی استطاعت نہیں کہ چھوٹی بیٹی کو پانچ تولے کے زیورات دے سکے۔‘
’جو خواتین پہلے سونے کے نیکلیس، چوڑیاں اور جھمکے خریدتی تھیں، وہ اب ٹاپس تک محدود ہو گئی ہیں۔‘