Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

استاذ الاساتذہ رحمت ولی آف نشکوہ، ’اک دھوپ تھی کہ ساتھ گئی آفتاب کے‘

گورنمنٹ ہائی سکول ورکوپ میں اپنے پانچ سال کے دوران استاد رحمت ولی کو شاز و نادر ہی ڈیوٹی سے سے غیر حاضر پایا۔
مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم
تو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیے
منگل تین دسمبر کی نصف شب کو آبائی علاقے اپر چترال کے گاؤں نشکوہ سے یہ اندوہناک خبر موصول ہوئی کہ ہمارے انتہائی شفیق، ہردلعزیز اور عزیز ترین معلم و مربی، استاذ الاساتذہ رحمت ولی اس دار فانی سے اپنے محبوب رب کی طرف مراجعت کر گئے ہیں۔ انا لله و انا الیه راجعون۔
بے شک موت برحق ہے اور ہم سب نے ایک دن اپنے رب کے حضور حاضر ہونا ہے، اس لیے استاد محترم کے دلدوز سانحہ ارتحال پر سر تسلیم خم ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ استاد محترم کی کامل مغفرت فرمائے اور انہیں اپنے ابدی جنتوں کا مکین بنائے۔آمین
استاد محترم کی موت کی خبر ہمارے گاؤں کے گروپ میں شیئر ہوئی تو گویا ماضی کی سمت دریچہ کُھل گیا اور میں لمحوں میں چترال کے دورافتادہ گاؤں ورکوپ، تورکھو، کے ہائی سکول کے کلاس روم میں پہنچ گیا۔ 90 کے دہائی کے وسط کی بات ہے جب ایک پسماندہ گاؤں سے تعلق رکھنے والا طالب علم پانچویں کلاس میں بورڈ امتحان پاس کرکے چھٹی جماعت میں وارد ہوا۔ یہ تو یاد نہیں کہ کس مضمون کا پیریڈ تھا، البتہ یہ اچھی طرح سے یاد ہے کہ ایک نہایت وجیہہ صورت، دراز قد اور چھا جانے والی متاثر کن شخصیت کلاس روم میں داخل ہوئی، یہ ہماری چھٹی جماعت کے کلاس ٹیچر ہیں۔ سلام کے بعد حاضری ہوئی اور پھر طلبہ سے سے تعارفی سیشن ہوا۔
یاد نہیں کہ چھٹی جماعت میں استاد محترم رحمت ولی نے ہمیں کونسا مضمون پڑھایا، لیکن یہ اچھی طرح یاد ہے کہ انہوں نے ہمیں صرف نصاب نہیں پڑھایا بلکہ اگلے پانچ سال تک والدین سے بڑھ کر ہماری تربیت کی اور ہمیں ایک اچھا اور کامیاب انسان بنانے میں منہمک ہوگئے۔
اس وقت ہمارے گاؤں میں خبروں کا واحد ذریعہ ریڈیو تھا، وہاں اخبار، ٹیلی ویژن یا کسی بھی دوسرے ذرائع ابلاغ کا تصور تک نہیں تھا، پھر ریڈیو کا رواج بھی ہر گھر میں نہیں تھا، نتیجتاً اس ماحول میں بیرونی دنیا بلکہ پاکستان کے دیگر علاقوں کے بارے میں ہمارا ایکسپوژر نہ ہونے کے برابر تھا (گوکہ ہمارے گھر میں بہت سارے رسائل و جرائد آتے تھے لیکن پاکستان کے اس کونے میں پرائمری اور مڈل سکول کے طلبہ میں نصاب سے ہٹ کر  کچھ اور پڑھنے کا رواج نہ ہونے کے برابر تھا)، تو ایسے وقت میں استاد رحمت ولی کے کلاس میں یہ کمی پوری ہوتی۔ استاد محترم روایتی معلم اور لکیر کے فقیر نہیں تھے کہ وہ صرف ٹیکسٹ بک تک محدود رہتے۔
آپ اپنی کلاس میں دنیا جہان کے قصے کہانیاں سناتے، حالات حاضرہ سے اپنے طلبہ کو باخبر رکھتے اور بڑے آدمیوں کے قصے سنا کر انہیں مہیز دیتے۔ ان کی ہمیشہ ہمیں نصیحت ہوتی کہ بڑے آدمی اصل میں بڑے انسان ہوتے ہیں اور ہمیں بھی نصیحت کرتے کہ زندگی بامقصد گزارنی چاہیے۔
استاد مرحوم جن لوگوں کے قصہ ہم طلبہ کے گوش گزار کرتے ان میں زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے کامیاب افراد شامل تھے، یوں ہمیں گلوکاروں اور فلم سٹارز تک کے  بارے میں جاننے کا موقع ملتا۔ 
گورنمنٹ ہائی سکول ورکوپ میں اپنے پانچ سال کے دوران استاد رحمت ولی کو شاز و نادر ہی سکول سے غیر حاضر پایا۔

استاد رحمت ولی کی کلاس میں بوریت کا احساس نہیں ہوتا بلکہ 45 منٹ کا پیریڈ پلک جھپکتے ہی گزر جاتا۔ (فوٹو: فیس بک)

استاد محترم کے ہاتھ میں ہمہ وقت ایک چھڑی ہوتی، اس وقت کے رواج کے مطابق اچھا استاد اسے سمجھا جاتا جو سخت گیر ہو، طلبہ اس سے ڈرتے ہوں اور وہ چھڑی کو بروکار لانے میں کوئی رعایت نہ برتتا ہو، اور اس کے خوف سے طلبہ سوال کرنا تو درکنار بلکہ اُلٹا خوف سے دبکے بیٹھے ہوں۔ گویا وہ کلاس روم میں نہیں قبرستان میں بیٹھے ہوں۔
اس ماحول میں ہمارے محبوب استاد کی چھڑی دھمکانے کے لیے نہیں فقط دکھانے کے لیے تھی، یوں کچھ ہی مدت بعد طلبہ اس چھڑی سے اس قدر مانوس ہو جاتے کہ کلاس میں قبرستان کا سناٹا کافور ہوجاتا اور طلبہ کے پیہم سوالات اور استاد محترم کے دلچسپ جوابات سے گلستان کا گمان ہوتا جہاں بے خوف پرندے چہچہا رہے ہوں۔
استاد رحمت ولی اگر کسی بات پر زیادہ خفا بھی ہوتے تو محض ڈانٹ پر اکتفا کرتے اور یہ غصہ بھی ’اے گھمیس‘ کی صدا پر تمام ہو جاتا۔۔ گھمیس مقامی زبان میں بھینس کو کہتے ہے۔
استاد محترم نصاب پڑھاتے ہوئے قصے کہانیاں، بڑے لوگوں کے واقعات، عالمی خبریں، حالات حاضرہ اور ملکی حالات سے بھی طلبہ کو باخبر رکھتے۔ ایسا نہیں ہے کہ وہ نصاب چھوڑ کر قصے کہانیاں سناتے بلکہ وہ نصاب کے خشک مضامین کو دلچسپ قصائص کی شیرینی میں ڈبو کر بیان کرتے، یوں بات مراز غالب کے اس مصرع کے مصداق ہوجاتی: ’وہ کہیں اور سنا کرے کوئی‘۔
ان کی کلاس میں بوریت کا احساس نہیں ہوتا بلکہ 45 منٹ کا پیریڈ پلک جھپکتے ہی گزر جاتا۔
استاد محترم کا طریقہ تدریس سہ لسانی شاعر انور مسعود صاحب کے مشاعرہ پڑھنے کا سا تھا۔ جس طرح انور مسعود صاحب شعر پڑھتے ہوئے سامعین کو اپنے ساتھ شامل کرتے ہیں، انہیں مخاطب کرتے، اشعار کے درمیان دلچسپ واقعات اور لطائف سناتے ہیں اور اس رواروی میں انہیں بور کیے بنا ان تک اپنا پیغام پہنچاتے ہیں، بعینہٖ یہی منظر استاد محترم کی کلاس میں ہوتا تھا۔

استاد محترم کا طریقہ تدریس سہ لسانی شاعر انور مسعود صاحب کے مشاعرہ پڑھنے کا سا تھا۔ (فوٹو: فیس بک)

دیکھیں بات محبوب استاد کی ہورہی تھی اور محبوب شاعر تک جا پہنچی۔ خیر ذکر تو تھا استاد محترم کا تو ایک بار وہ طلبہ کو سمجھا رہے تھے کہ آپ کے علم، عہدے، مرتبے سے اگر آپ کے ملک، معاشرے اور انسانوں کو کوئی خیر نہیں پہنچتا تو وہ بے کار ہے۔ اس حوالے سے انہوں نے ملکہ ترنم نورجہاں کی مثال دی۔
واضح رہے کہ استاد رحمت ولی صاحب مذہبی شخصیت تھے، اور انہیں موسیقی سے کوئی لگاؤ نہیں تھا، تاہم ملکہ ترنم کی مثال دے کر ہمیں سمجھانے لگے کہ انہوں نے کیسے اپنے فن سے ملک و قوم کی خدمت کی اور 1965 کی جنگ کے دوران کیسے لازوال ملی نغمے اور ترانے گائے۔
استاد رحمت ولی کلاس روم میں اکثر سورۃ المومنون کی آیت ’هَیْهَاتَ هَیْهَاتَ لِمَا تُوْعَدُوْنَ۔‘ کا با آواز بلند ورد کرتے تھے۔
ان کے وصال کی خبر کے ساتھ ہی میری کانوں میں سورۃ المومنون کی مذکورہ آیت گونجنے لگی اور میں عالم خیال میں 29 برس قبل کی چھٹی جماعت کے کلاس روم میں پہنچ گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ استاد رحمت ولی صرف میرے ہی نہیں بلکہ میرے مرحوم والد کے بھی استاد رہ چکے تھے۔ ان کی یاد ہمیں نہاں خانہ دل میں فروزاں رہے گی۔
مرنے والے مرتے ہیں لیکن فنا ہوتے نہیں
 یہ حقیقت میں کبھی ہم سے جُدا ہوتے نہیں

شیئر: