Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نادرا کی جعلی ویب سائٹس اوورسیز پاکستانیوں کو کیسے لوٹ رہی ہیں؟

ترجمان نادرا کا کہنا ہے کہ اوورسیز پاکستانیز صرف اور صرف نادرا کی آفیشل ویب سائٹ کے ذریعے اپنا کارڈ بنوائیں۔ (فائل فوٹو)
پاکستان میں قومی رجسٹریشن کے ادارے ’نادرا‘ کا نام استعمال کر کے اوورسیز پاکستانیوں سے پیسے بٹورنے کے لیے بیرون ملک کئی ویب سائٹس کام کر رہی ہیں۔
یہ ویب سائٹس اوورسیز پاکستانیوں کو کیسے ٹارگٹ کرتی ہیں اور کیسے ان سے پیسے بٹورتی ہیں یہ ایک دلچسپ کہانی ہے۔
نادرا کی جانب سے ایک انتباہ بھی جاری کیا گیا ہے کہ تمام افراد جو پاکستان سے باہر ہیں یا پاکستان میں ہیں وہ نادرا کی سرکاری ویب سائٹ یا موبائل ایپلی کیشن کے علاوہ کسی بھی تھرڈ پارٹی ویب سائٹ کو اپنے شناختی کارڈ کی تجدید یا دیگر معاملات کے لیے استعمال مت کریں۔
صبا علی کا تعلق لاہور سے ہے اور وہ گذشتہ 10 برسوں سے برطانیہ کے شہر مانچسٹر میں رہائش پذیر ہیں۔ ان کے پاس دوہری شہریت ہے اور حال ہی میں انہوں نے اپنے نائی کاپ کی تجدید کے لیے نادرا کی ویب سائٹ ڈھونڈنے کے لیے انٹرنیٹ کا سہارا لیا تو انہیں ملتے جلتے نام سے بنی ایک ویب سائٹ ’نادرا کارڈ سینٹر ڈاٹ کام ڈاٹ یوکے‘ کا ویب ایڈریس ملا۔
اس ویب سائٹ کے حوالے سے انہوں نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’میں نے جیسے سرچ کی تو پہلے نمبر پہ جو ویب سائٹ آئی اس میں نادرا لکھا ہوا تھا اور کارڈ کا بھی ذکر تھا، تو میں نے اس کو کھول لیا اور اس کے بعد اسی ویب سائٹ کے اوپر ایک واٹس ایپ کا نمبر بھی تھا کہ یہاں رابطہ کریں تو میں نے اس واٹس ایپ کے نمبر پر رابطہ کیا اور انہیں کہا کہ مجھے نائی کاپ کی تجدید کروانی ہے تو انہوں نے مجھے کافی ساری دستاویزات بھیجنے کو کہا جس میں میری والدہ کے ڈیتھ سرٹیفیکیٹ تک شامل تھے۔‘
’میں نے جب اس کی فیس پوچھی تو مجھے بتایا گیا کہ 160 پاؤنڈ ادا کرنے ہوں گے، تو مجھے تھوڑا عجیب لگا کیونکہ شناختی کارڈ کی تجدید کے لیے یہ بہت زیادہ رقم تھی۔ میں نے اپنے خاوند سے جب مشورہ کیا تو ہم نے وہ ویب سائٹ دوبارہ کھولی تو انہوں نے ویب ایڈریس دیکھتے ہوئے کہا کہ سرکاری ویب سائٹ کے آگے ’ڈاٹ پی کے‘ ہونا چاہیے تھا، اس میں ’ڈاٹ یو کے‘ ہے، یہ جعلی لگتی ہے۔ اس کے بعد جب ہم نے سرچ کی تو اور بھی بہت ساری ایسی ویب سائٹس ہمیں نظر آئیں جو درست نہیں تھیں۔ اس کے بعد پھر ہم نے وہ نمبر بلاک کر دیا اور ہم نے کسی بھی ویب سائٹ پر اپلائی نہیں کیا کیونکہ ہمیں اس میں کچھ غلط لگا۔‘
نادرا کے نام پر بنی جعلی ویب سائٹس میں زیادہ تر برطانیہ کے ویب ایڈریسز پر رجسٹرڈ دکھائی دیتی ہیں جبکہ کچھ ویب سائٹس امریکہ اور کینیڈا کے ویب ایڈریسز پر بھی ہیں۔ جو لوگ بھی ان ویب سائٹس کو چلا رہے ہیں، ان کو اچھی طرح اندازہ ہے کہ اوورسیز پاکستانی انٹرنیٹ پر جب نادرا کی ویب سائٹ سرچ کریں گے تو سرچ انجن آپٹیمائزیشن (ایس سی او) میں انہی کے ملک میں بننے والی ویب سائٹس چونکہ پہلے نمبر پر آتی ہیں تو وہی ظاہر ہوں گی۔ اس وجہ سے کئی اوورسیز پاکستانی ان ویب سائٹس کے ہاتھوں لوٹے جا رہے ہیں۔

برطانیہ ہی سے تعلق رکھنے والے ایک اور پاکستانی نژاد شہری جہاںزیب نے بتایا کہ ’انہوں نے اپنے بیٹے کے نائی کوپ کی تجدید کے لیے گوگل سرچ کی تو جو ویب سائٹ پہلے نمبر پہ آئی اس میں نادرا لکھا ہوا تھا۔ لیکن ویب سائٹ کھولنے کے بعد اس میں جو تصاویر لگی ہوئی تھیں وہ پاکستان کی نہیں تھیں تو یہ ویب سائٹ تھوڑی مختلف لگی اور اس کے واٹس ایپ نمبر پر جب رابطہ کیا تو وہ بہت عجیب طرح کی بات چیت تھی اس کے بعد میں نے رابطہ نہیں کیا۔‘
نادرا کے نام پر بننے والی یہ جعلی ویب سائٹس بظاہر دو طرح سے کام کر رہی ہیں، ایک تو اوورسیز پاکستانیوں سے کارڈ بنانے کے لیے زیادہ رقم کا مطالبہ کیا جاتا ہے اور دوسرا ان کی ذاتی معلومات بھی حاصل کر لی جاتی ہیں۔
ان ویب سائٹس کی پہچان یہ ہے کہ ان کے یو آر ایل میں ’ڈاٹ پی کے‘ کا استعمال نہیں کیا جا رہا اور اگر استعمال کیا بھی جا رہا ہے تو ’ڈاٹ کام‘ کے بعد استعمال نہیں ہو رہا، بلکہ شروع میں کہیں نہ کہیں اس کو لگا دیا جاتا ہے۔
اردو نیوز نے ایسی بہت سی ویب سائٹس تلاش کی ہیں جو اس طرح سے کام کر رہی ہیں:
Nadracardcentre.co.uk
Cardcenter.co.uk
Nadra.cardcenter.co.uk
Pk-nadra-id.co.uk
The-nadra.co.uk
Nadraonlinecard.com
ان سب ویب سائٹس کے اندر دھوکہ دہی کے لیے نادرا کا نام استعمال کیا گیا ہے۔ ان ویب سائٹس پر جانے کے بعد صارف کو فوری اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ سرکاری ویب سائٹس نہیں بلکہ دھوکہ دہی کے لیے استعمال ہونے والی جعلی ویب سائٹس ہیں۔

ترجمان نادرا کے مطابق کسی طرح کی بھی تھرڈ پارٹی ویب سائٹ یا ایپلی کیشن پر کسی بھی صورت اپنا ڈیٹا یا رقم نہ دیں۔ (فائل فوٹو: نادرا)

ان جعلی ویب سائٹس کے حوالے سے ترجمان نادرا کا کہنا ہے کہ ’اوورسیز پاکستانیوں سے گزارش ہے کہ وہ صرف اور صرف نادرا کی آفیشل ویب سائٹ کے ذریعے اپنے کارڈ کی تجدید کروائیں یعنی کارڈ بنوائیں۔ اگر انہیں کسی قسم کا کوئی مغالطہ ہو تو پاکستانی سفارت خانوں اور ہائی کمیشن سے معلومات لی جا سکتی ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ سفارت خانوں کے اندر نادرا ڈیسک بھی بنے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک موبائل ایپلی کیشن بھی موجود ہے۔
’کسی طرح کی بھی تھرڈ پارٹی ویب سائٹ یا ایپلی کیشن پر کسی بھی صورت اپنا ڈیٹا یا رقم نہ دیں، چونکہ یہ ویب سائٹس پاکستان میں کام نہیں کر رہیں تو اس لیے ان کے خلاف قانونی کارروائی کرنا بھی ایک پیچیدہ عمل ہے۔ تاہم یہ بات ہمارے علم میں آ چکی ہے اور ہم مختلف ممالک سے رابطے میں ہیں اور ان ویب سائٹس کے خلاف قانونی کارروائی بھی کریں گے۔‘

شیئر: