Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

امن و امان کی صورتحال، ’افغانستان سے تجارت بند ہونے سے صوبائی معیشت کو نقصان‘

خیبر پختونخوا کے وزیراعلٰی علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ امن وامان کی خراب صورتحال کے باعث افغانستان کے ساتھ صوبے کے تجارتی روٹس بند پڑے ہیں جس کا نقصان صوبائی معیشت کو ہو رہا ہے۔
اتوار کو پشاور کے وزیراعلٰی ہاؤس میں غیرملکی میڈیا سے گفتگو میں اُن کا کہنا تھا کہ ’افغانستان ہمارا پڑوسی ملک ہے اور اس وقت پوری دنیا نے اس کو مان لیا ہے تو ہمیں بھی اُن کے ساتھ مذاکرات کرنے چاہییں۔‘
علی امین گنڈاپور نے عسکریت پسندوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اس وقت لگ بھگ 16 سے 18 ہزار عناصر ہماری طرف ہیں اور 22 سے 24 ہزار ہمارے عناصر اُس طرف ہیں۔ تو ایسی صورتحال میں یہاں والے وہاں جائیں اور وہاں کے یہاں آئیں تو اس پر کارروائی کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ ہم کارروائی کے لیے سرحد پار نہیں کر سکتے۔‘
وزیراعلٰی نے مزید کہا کہ ’اس صورتحال میں ہمیں اُن کے ساتھ بات چیت کرنی چاہیے اور جب ہم بات نہیں کرنا چاہ رہے تھے تو مجبورا مجھے کہنا پڑا کہ پھر صوبہ اس پر مذاکرات کرے، کیونکہ مسئلہ تو میرے صوبے میں آ رہا ہے۔ لوگ تو میرے مر رہے ہیں، نقصان تو میری معیشت کو ہو رہا ہے۔‘
گنڈاپور نے کہا کہ ’اس بات سے انہوں (وفاق) نے کچھ اور ہی بنا لیا جیسے میں اُن سے کوئی ذاتی معاہدہ کر رہا ہوں۔‘
وزیراعلٰی نے دعویٰ کیا کہ اب وفاقی حکومت اس مسئلے پر مذاکرات پر تیار ہو گئی ہے اور مجھے کہا کہ ان سے بات چیت کرتے ہیں۔ لیکن اب بھی مجھے سنجیدگی نظر نہیں آتی کیونکہ یہ مسئلہ صرف کہنے سے حل نہیں ہوتا۔ عملی کام کرنا پڑے گا۔‘
علی امین گنڈاپور نے کہا کہ ’افغانستان کے ساتھ مذاکرات کیے بغیر ہمارے لیے اتنی طویل سرحد پر امن قائم نہیں کرنا ممکن نہیں۔‘
تحریک انصاف کے احتجاج کے بارے میں وزیراعلٰی نے کہا کہ ’فسطائیت کے خلاف عوام لاکھوں کی تعداد میں نکل رہے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ آنسو گیس اب ہمارے لیے ایک گپ بن گئی ہے۔ پرفیوم اور باڈی سپرے بن گئی ہے۔ اب ہمیں جان سے بھی مارا جا رہا ہے۔‘
علی امین گنڈاپور نے دعویٰ کیا کہ ’ہمارے مزید لوگ لاپتہ ہیں۔ اس وقت ہمارے 68 سے زائد لوگ ہیں جن کو ہم ہسپتالوں سے لائے۔ کیا ریاست کا یہ کام ہے کہ وہ ایک جماعت کو احتجاج بھی نہیں کرنے دے گی۔‘

شیئر: