استاد ذاکر حسین کی رقص کرتی انگلیاں جو طبلے کو نئی زندگی دے گئیں
استاد ذاکر حسین کی رقص کرتی انگلیاں جو طبلے کو نئی زندگی دے گئیں
پیر 16 دسمبر 2024 8:56
ذاکر حسین نے عالمی سطح پر طبلے کو ایک نئی شناخت دی (فوٹو: آیووا سورس)
طبلے پر رقص کرتی انگلیوں سے جہاں سُر پھوٹتے وہیں تال بھی کانوں میں رس گھولتی کیونکہ موسیقی ان کی گُھٹی میں تھی۔
انڈین ٹی وی چینل این ڈی ٹی وی کی ویب سائٹ پر لیجنڈ طبلہ نواز ذاکر حسین کے حوالے سے شائع ہونے والے مضمون میں ان کی زندگی اور فن کا احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
ذاکر حسین 73 برس کی عمر میں پھیپھڑوں کے مرض کی وجہ سے سان فرانسسکو کے ہسپتال میں پیر کی صبح انتقال کر گئے۔
ذاکر حسین طبلہ نواز ہونے کے ساتھ ساتھ موسیقار اور اداکار بھی تھے، جن کا بنیادی طور پر تعلق انڈیا سے تھا مگر وہ پوری دنیا کے تھے۔
ایک ایسے فنکار جنہوں نے انڈیا اور دنیا میں بے بہا نام کمایا، وہ اپنے پیچھے شاندار موسیقی کی چھ دہائیوں سے بھی زیادہ کا عرصہ چھوڑ گئے۔ وہ اسی سٹیج پر اپنی کارکردگی کا مظاہرہ کر چکے ہیں جہاں انڈیا اور دنیا کے عظیم ترین موسیقار جلوہ افروز ہوئے اور وہ انڈیا کی کلاسیکی موسیقی اور عالمی موسیقی کا خوبصورت امتزاج دنیا کے سامنے پیش کرنے میں کامیاب رہے جس سے طبلے کو ایک نئی شناخت ملی۔
عظیم فنکار نے اپنے والد اللہ رکھا جو طبلہ نواز تھے، سے موسیقی کی تربیت لی اور بعدازاں موسیقی کے میدان میں یوں آگے بڑھے کہ اپنی صلاحیتوں کو منوایا اور مختلف اقسام کی موسیقی تخلیق کی۔
تقریباً ایک برس قبل ذاکر حسین نے گووا میں خبر رساں ادارے پی ٹی آئی کو بتایا تھا کہ ’میں جب بڑا ہو رہا تھا تو یہ خیال میرے ذہن کے ساتھ بندھ گیا کہ موسیقی صرف موسیقی ہے، وہ انڈین یا کوئی اور موسیقی نہیں ہے۔ اس لیے میں نے خصوصی طور پر جب ان موسیقاروں کے ساتھ کام شروع کیا جو انڈین نہیں تھے تو ایک نیچرل ہینڈشیک کی طرح لگا۔‘
موسیقی سے وابستہ گھرانے کا حصہ ہونے کی بدولت ان کے فن کا سفر بہت جلدی شروع ہو گیا تھا اور انہوں نے سات سال کی عمر میں اپنی پہلی کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور اس کے بعد سلسلہ چل نکلا۔ انہوں نے موسیقی کے ساتھ ساتھ اپنی تعلیم بھی جاری رکھی اور اپنی جنم بھومی ممبئی میں ہی تعلیم مکمل کرنے کے بعد 1970 میں امریکہ چلے گئے۔
فروری میں ذاکر انڈیا کے پہلے موسیقار بنے جب انہوں نے 66ویں سالانہ گریمی ایوارڈز جیتے جو ان کو بہترین عالمی البم، بہترین عالمی کارکردگی اور عصر حاضر کے سازوں کے بہترین استعمال کے صلے میں دیے گئے۔
انہوں نے اس موقع پر انسٹاگرام پر لکھا تھا کہ ’میں اتنے گریمی ایوارڈ ملنے پر محبت اور انکساری کے جذبات سے مغلوب ہوں۔ میرے لیے سب کو انفرادی طور پر جواب دینا ممکن نہیں ہے لیکن یقین جانیے آپ سب میرے دل میں رہتے ہیں، آپ میں سے ہر ایک کا شکریہ۔‘
انہوں نے مزید لکھا کہ ’یہ انڈیا اور گریمیز کے لیے ایک بہترین دن ہے اور مجھے قومی پرچم اٹھانے پر فخر ہے۔‘
2024 کا گریمی ایوارڈ ان کو بہترین عالمی موسیقی کے البم ’دِس مومنٹ‘ کے لیے دیا گیا جو کہ گروپ شکتی کے ساتھ مل کر بنایا گیا تھا، جس میں اس کے بانی رکن اور برطانوی گٹارسٹ جان مک لاگلن بھی شامل تھے، جبکہ صداکار شکر مہادیون، وائلنسٹ گینیش راجہ گوپالن اور باجا بجانے والے سلواگینیش ونیکرم بھی اس کا حصہ تھے۔
بعدازاں انہوں نے دو مزید ایوارڈ حاصل کیے جو ان کو بہترین عالمی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے پر دیے گئے جن میں سے ایک ’پشتو‘ اور دوسرا عصری آلات موسیقی کے بہترین استعمال ’ایز وی سپیک‘ کے لیے دیے گئے۔ جس میں ان کے ساتھ فلاٹیسٹ راکیش چوراسیہ اور امریکی بینجو نواز بیلا فلیک اور امریکی بیسیسٹ ایڈگر میئر بھی شامل تھے۔
پچھلے برس جنوری میں شکتی گروپ دنیا کے دورے کے لیے دوبارہ اکٹھا ہوا، جو مداحوں کے لیے ایک پرجوش لمحہ تھا۔
شکتی کے علاوہ بھی ذاکر حسین نے دیگر متعدد اہم کارنامے انجام دیے جن میں سُروں کے بادشاہ، مِکی ہارٹ کے ساتھ گلوبل ڈرم پراجیکٹ، طبلہ بیٹ سائنس، سنگم ودھ لائڈ اینڈ ایریک ہارلینڈ جیسے بڑے مواقع شامل ہیں۔
اسی طرح انہوں نے کریس پوٹر، دیو ہالینڈ، بیلا فلیک اور حال ہی میں ہربی ہینکاک کے ساتھ مل بھی کام کیا۔
ذاکر حسین نے اس کے لیے تین کنسرٹس بنائے، جن میں سے تیسرا اور پہلا طبلے اور آرکسٹرا سے متعلق تھا۔ ان کے پریمیئر 2015 میں انڈیا، 2016 میں یورپ و یوکے اور اپریل 2017 میں امریکہ میں ہوئے۔
مصنفہ نسرین منی کبیر جنہوں نے ان کے بارے میں کتاب ’ذاکر حسین، اے لائف ان میوزک‘ لکھی کا کہنا ہے کہ ’ذاکر حسین کہا کرتے تھے کہ نجی محافل، کاروباری شو اور شادی بیاہ کی تقاریب وہ مقامات نہیں جہاں موسیقی کو سنا جائے۔‘
انہوں نے ذاکر حسین کے الفاظ دہراتے ہوئے کہا کہ ’یہ وہ مقامات ہیں جہاں کھانے پینے اور دوسروں سے ملنے کے لیے آتے ہیں اور یہ ایسا ماحول نہیں ہوتا جس میں موسیقی کو سنا جائے۔ میرے خیال میں اس کے لیے بہترین جگہ کنسرٹ ہال یا تھیٹر ہیں۔ جہاں لوگ نیم اندھیرے ماحول میں اپنی نشستوں پر بیٹھے ہوتے ہیں اور موسیقار اپنی پرفارمنس کی طرف بڑھتے ہیں۔‘
وہ پروگراموں کے منتظمین سے کہا کرتے تھے کہ پرفارمنس شروع ہوتے ہی دروازے بند کر دیے جائیں اور دیر سے پہنچنے والوں کو اندر نہ آنے دیا جائے۔