استاد بسم اللہ خان، جن کی وجہ سے شہنائی کو عالمی سطح پر پہچان ملی
استاد بسم اللہ خان، جن کی وجہ سے شہنائی کو عالمی سطح پر پہچان ملی
بدھ 21 اگست 2024 7:35
علی عباس۔ لاہور
استاد بسم اللہ خاں کی شہنائی کی دھنوں پر یورپی اور امریکی بھی اَش اَش کر اٹھتے تھے (فوٹو: انڈیا ٹوڈے)
یہ اس عہد کا ذکر ہے جب استاد بسم اللہ خاں کی شہرت سرحدوں کی محتاج نہیں رہی تھی۔ وہ امریکا کی شکاگو یونیورسٹی میں موسیقی کی تعلیم دینے کے لیے موجود تھے جب انتظامیہ نے استاد کو امریکا رُکنے کی پیشکش کرتے ہوئے کہا کہ اُن کے لیے امریکا میں ہی بنارس جیسا ماحول بنا دیا جائے گا۔
استاد نہ مانے تو یونیورسٹی انتظامیہ نے کہا کہ وہ چاہیں تو بنارس سے اپنے قریبی لوگوں کو بھی شکاگو بلا سکتے ہیں جن کی رہائش کی ذمہ داری بھی یونیورسٹی کی ہو گی۔
استاد نے اس پر چند لمحے سوچا اور گویا ہوئے ’آپ یہ سب تو کر لو گے لیکن میری گنگا کہاں سے لائو گے؟‘
استاد بسم اللہ خاں گنگا جمنی تہذیب کا اہم حوالہ تھے۔ یہ وہ تہذیب ہے جو موجودہ انڈیا میں خواب و خیال ہو چکی اور اس کا ذکر اب صرف تاریخ کی کتابوں میں ہی ملتا ہے مگر استاد بسم اللہ خاں اس تہذیب کے اُن آخری علم برداروں میں سے ایک تھے جنہوں نے گنگا کے کنارے، مندر کے نوبت خانوں میں شہنائی بجا کر دنیا پر یہ باور کیا کہ سات سُروں کا کوئی دین، کوئی دھرم نہیں۔
انہوں نے نومبر 1993 میں لندن کے کوئین الزبتھ ہال میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’آپ دیکھ لیجیے اور غور کرلیجیے یہ دنیا ہے نا، گروہ بندی ہے یہاں مگر سنگیت ہے جو سب کو گھیر کر لے آتا ہے۔ اس میں ذات پات نہیں ہے۔ نہیں ہے ذات پات۔ ہم کہتے ہیں، کھرج، رکھب، گندھار، مدھم، پنچم، دھیوت نکھا، سات سُر ہیں۔ دنیا کا کوئی (فرد) یہ کہے کہ آٹھ ہیں۔‘
استاد بسم اللہ خاں کی شہنائی کی دھنوں پر یورپی اور امریکی بھی اَش اَش کر اٹھتے تھے۔
کہا جاتا ہے کہ ہندوستان کا یہ قدیم ترین ساز دلہن کے احساسات کی ترجمانی کرتا ہے۔ یہ جب شادی بیاہ پر بجایا جاتا ہے تو دو طرح کے احساسات کی ترجمانی کر رہا ہوتا ہے۔ ایک جانب دلہن کی ماں باپ سے جدائی کی کسک تو دوسری جانب سہاگن کے پیا سے ملنے پر مسرت کے جذبات کا اظہار ہو رہا ہوتا ہے۔ یوں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ شہنائی ہجر اور وصل دونوں طرح کے جذبات کی ترجمانی کرتی ہے۔ یہ کبھی سوگ کی کیفیت طاری کر دیتی ہے اور کبھی شادمانی کے جذبات کی ترجمانی کرنے لگتی ہے۔
شہنائی بجانے کے لیے سانس پر عبور ہونا ضروری ہے جس کے لیے برسوں کی ریاضت درکار ہے، جنوں درکار ہے اور اس جذبے کا ہونا ضروری ہے جو چنگاڑی کے آگ بننے کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ وہ جذبہ جس کا اظہار استاد بسم اللہ خاں آٹھ دہائیوں تک کرتے رہے۔
استاد بسم اللہ خاں انڈین کلاسیکی موسیقی کا وہ معتبر حوالہ ہیں جو بنارس کے عوامی سروں اور کلاسیکی موسیقی کے ملاپ سے ایسی موسیقی ترتیب دینے میں کامیاب رہے جس نے انڈیا کے سابق وزیراعظم جواہر لال نہرو کو بھی مسحور کر دیا تھا۔
سال 1947 مں ہندوستان تقسیم ہوا تو آزادی کا جشن منانے کے لیے دیگر بہت سے موسیقاروں کے ساتھ ساتھ استاد بسم اللہ خاں کو بھی دعوت دی گئی، وہ دہلی تشریف لائے تو ان کی آئو بھگت سرکاری مہمان کے طور پر کی گئی۔
استاد بسم اللہ خاں شہنائی بجانے کا موقع ملنے پر خوش تھے، پرجوش تھے مگر وہ یہ جانتے تھے کہ ان کے لیے لال قلعے کی فصیل پر چلتے ہوئے شہنائی بجانا ممکن نہیں ہوگا تو ایک بڑے فنکار کی طرح انہوں نے اپنے اس خدشے کا اظہار پنڈت نہرو سے کر دیا جس پر انہوں نے وہ تاریخی الفاظ کہے جو ایک بڑے سیاسی رہنما کا ایک بڑے فنکار کو خراجِ تحسن تھا۔
انہوں نے کہا کہ ’آپ لال قلعے پر معمولی فنکار کی طرح نہیں چلیں گے بلکہ آپ آگے چلیں گے اور پورا ملک آپ کے پیچھے چلے گا۔‘
اور یوں استاد بسم اللہ خاں نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ صبح آزادی کا استقبال راگ کافی بجا کر کیا۔ اور آنے والے چند ہی برسوں میں یہ روایت بن گئی کہ انڈیا کے سرکاری ٹیلی ویژن چینل دور درشن پر یوم آزادی پر وزیراعظم کی تقریر کے بعد استاد بسم اللہ خاں شہنائی بجایا کرتے تھے۔
استاد بسم اللہ خاں 21 مارچ 1916 کو ڈمراؤں کی ریاست میں موسیقاروں کے خاندان میں پیدا ہوئے۔ یہ بہار سے اترپردیش تک پھیل ہوئی ایک بڑی شاہی ریاست تھی جس میں 70 دیہات شامل تھے۔
ڈمراؤں کا موجودہ قصبہ انڈین ریاست بہار کے ضلع بکسر کا حصہ ہے۔ استاد بسم اللہ خاں کے والد پیغمبر بخش خاں ڈمرائوں کے شاہی محل سے منسلک تھے۔ ان کے دادا استاد سالار حسین اور استاد رسول بخش خاں بھی ڈمراؤں کے شاہی محل سے منسلک رہے تھے۔
استاد بسم اللہ خاں کا نام پیدائش کے وقت قمرالدین رکھا گیا جس کی وجہ یہ تھی کہ ان کے بڑے بھائی کا نام شمس الدین تھا، یوں دونوں نام ہم وزن تھے، یا یوں کہہ لیجیے کہ سُر میں تھے۔
کہا جاتا ہے کہ اُن کے دادا رسول بخش خاں جو خود بھی شہنائی نواز تھے، نے اپنے پوتے کو دیکھا تو بے اختیار زباں سے ’بسم اللہ‘ نکلا اور یوں کم سن قمرالدین بسم اللہ کے نام سے پہچانے جانے لگے۔ تین برس کے ہوئے تو ماموں علی بخش اپنے ساتھ وارانسی (اس وقت بنارس) لے آئے جو کاشی وشواناتھ مندر سے بطور شہنائی نواز منسلک تھے۔ یہ موجودہ انڈیا کا مصروف ترین ہندو مندر ہے جہاں روزانہ اوسطاً 45 ہزار لوگ آتے ہیں۔
دریائے گنگا کے کنارے آباد بنارس اگرچہ ہندوؤں کے مقدس ترین شہروں میں سے ایک ہے مگر مسلمان کاری گروں کے ذکر کے بغیر اس شہر کی بے مثل تہذیب و ثقافت کا ذکر ادھورا رہے گا جو ریشم بُننے میں تو مہارت رکھتے ہی ہیں بلکہ ہندوؤں کے مذہبی تہواروں دسہرا کے لیے راون کے پتلے بھی بناتے ہیں جب کہ واراناسی سے کچھ ہی فاصلے پر سارناتھ نام کا ایک مقام ہے جہاں مہاتما بدھا نے اپنا پہلا خطبہ دیا تھا۔
قمرالدین کا جو سفر ’بسم اللہ‘ کے نام سے شروع ہوا، اس نے اس وقت مقبولیت حاصل کرنا شروع کی جب انھوں نے کولکتہ (یا کلکتہ) میں سال 1937 میں ہونے والی آل انڈیا میوزک کانفرنس میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا اور شائقین موسیقی کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔
غیرمنقسم ہندوستان میں آل انڈیا میوزک کانفرنس کلاسیکی موسیقی کی ایک اہم تقریب ہوا کرتی تھی۔ تقسیم کے بعد آل پاکستان میوزک کانفرنس نے اس روایت کو آگے بڑھایا۔
آل انڈیا میوزک کانفرنس کے بعد نوجوان بسم اللہ خاں کی مقبولیت کا ایسا سفر شروع ہوا جس نے شہنائی کے ساز کی شہرت اُن دیسوں تک پہنچا دی جو اس سے قبل مشرقی سازوں کے بارے میں لاعلم تھے۔ اور شہنائی جیسا ساز جو اس وقت مندروں، شادی بیاہ کی تقریبات یا پھر جنازوں پر ہی بجایا جاتا تھا، اس کو وہ اعتبار بخشا کہ ہزاروں لوگ استاد بسم اللہ خاں کو شہنائی کے سُر بکھیرتے سننے کے لیے جمع ہو جایا کرتے۔
اور سال 1966 میں استاد بسم اللہ خاں نے سکاٹ لینڈ کے شہر ایڈنبرا میں ہونے والے آرٹس فیسٹیول میں پرفارم کیا۔ یہ بیرون ملک ان کی پہلی پرفارمنس تھی۔ ایڈنبرا فیسٹیول پرفارمنگ آرٹس کا دنیا کا سب سے بڑا فیسٹیول ہے جس کا آغاز سال 1947 میں ہوا اور سال 2018 میں ہونے والا فیسٹیول 25 روز تک جاری رہا تھا اور یہ ٹکٹوں کی فروخت کے حوالے سے اولمپکس اور فٹ بال ورلڈ کپ کے بعد سب سے بڑا ایونٹ ہے۔
ایڈنبرا فیسٹیول کے بعد استاد بسم اللہ خاں نے امریکا، کینیڈا، جاپان، مغربی افریقہ سمیت مشرق و مغربی ممالک کے دورے کیے اور کانز آرٹس فیسٹیول، اوساکا ٹریڈ فیئر سمیت کئی عالمی تقاریب میں شہنائی بجا کر سامعین کو مسحور کیا۔
سال 1958 میں ریلیز ہونے والی بے مثل ہدایت کار ستیہ جیت رے کی بنگالی فلم ’جلسہ گھر‘ میں موسیقی کے دیوتا اکٹھے ہو گئے تھے جن میں استاد بسم اللہ خاں کے علاوہ ستار نواز استاد وحید خاں اور ملکۂ عزل بیگم اختر بھی شامل تھیں۔ یہ ستیہ جیت رے کی چند بہترین فلموں میں سے ایک ہے۔ اس سے اگلے ہی سال معروف ہدایت کار وجے بھٹ کی فلم ’گونج اٹھی شہنائی‘ میں ایک شہنائی نواز کی زندگی کا احاطہ کیا گیا تھا جن کے لیے استاد بسم اللہ خاں نے شہنائی بجائی۔ یہ معروف اداکار راجندر کمار کی پہلی ہٹ فلم تھی۔ وجے بھٹ ’بیجو باورا‘ اور ’ہمالیہ کی گود میں‘ جیسی سپرہٹ فلموں کی وجہ سے ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ استاد بسم اللہ نے آنے والے برسوں میں کنڑ زبان کی ایک فلم میں بھی شہنائی بجا کر بے پناہ داد وصول کی۔
عظیم گلوکارہ آشا بھوسلے نے استاد بسم اللہ خاں کے بارے میں کہا تھا، ’شہنائی بجانا ایک مشکل کام ہے اور وہ اس کو اپنی زندگی کی آخری سانس تک انتہائی آسانی کے ساتھ بجاتے رہے۔ ان کا کلاسیکی موسیقی کے حوالے سے علم غیرمعمولی تھا۔‘
شہنائی استاد بسم اللہ خاں کی پہلی محبت تھی جسے وہ پیار سے اپنی ’بیگم‘ کہا کرتے۔ وہ ایک ایسے فنکار تھے جن کے فن کے قدر دان دنیا کے ہر خطے میں موجود ہیں اور جنہیں انڈیا کی حکومت کی جانب سے پدما شری، پدما بھوشن، پدما وبھوشن کے علاوہ اعلیٰ ترین شہری اعزاز بھارت رتن سے بھی نوازا جا چکا ہے۔ اُن سے قبل صرف دو موسیقار ہی بھارت رتن حاص کر سکے تھے جن میں ایک ایم ایس سبولکشمی اور دوسرے پنڈت روی شنکر ہیں۔
استاد بسم اللہ خاں نے سادہ زندگی گزاری۔ وہ عالمی شہرت حاصل کرنے کے باوجود سائیکل رکشہ پر سفر کیا کرتے، ساری زندگی ایک سادہ سے گھر میں گزار دی اور شاہانہ طرز زندگی سے دور رہے۔ وہ اپنے سو کے قریب رشتہ داروں کی کفالت کرتے رہے اور ضرورت مندوں کی مدد کرنے کے لیے بھی ہمہ وقت تیار رہتے۔
عظیم ستار نواز اور موسیقار پنڈت روی شنکر نے استاد بسم اللہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا، ’استاد وجیہہ تھے، وہ زبردست حسِ مزاح رکھتے تھے اور ان میں جادوئی کشش تھی۔ میں نے سال 1968 میں ہالی ووڈ باؤل میں ان کے کنسرٹ کا اہتمام کیا جو بہت زیادہ کامیاب ہوا۔ بہت سے دیگر موسیقار جیسا کہ علی اکبر خاں اور جارج ہیریسن بھی اس کنسرٹ میں شریک ہوئے۔ مجھے بعدازاں دہلی میں بیرون ملک انڈینز کے مختصر کنسرٹ میں ان کے ساتھ پرفارم کرنے کا موقع ملا۔ ہم نے کچھ دن دہلی سنٹر میں ایک ساتھ قیام کیا، ہم ایک ساتھ کھانا کھاتے اور موج مستی کرتے۔‘
انہوں نے مزید کہا تھا کہ ’استاد بسم اللہ خاں کا شہنائی کو کلاسیکی موسیقی کے منظرنامے میں نمایاں کرنے میں اہم کردار ہے۔ شہنائی کبھی کنسرٹس میں نہیں بجائی جاتی تھی اور شہنائی نواز صرف شادی کی تقریبات میں ہی پرفارم کیا کرتے تھے۔ اُن کو کبھی کلاسیکی موسیقاروں کے ساتھ کام کرنے کا موقع نہیں ملا۔ بسم اللہ خاں نے اس سارے منظرنامے کو تبدیل کر دیا جس کی پیروی دیگر موسیقاروں نے بھی کی۔ شہنائی ایک بلند آہنگ ساز ہے۔ ماضی میں شہنائی نواز مائیکرو فون سے 20 فٹ کی دوری پر کھڑے ہو کر یہ ساز بجایا کرتے تھے جس کی وجہ اس ساز کا بلند آہنگ ہونا تھا۔ استاد بسم اللہ خاں نے اس کی آواز کو وہ درستگی دی جس کے باعث وہ اسے مائیک کے سامنے بجانے کے قابل ہوئے۔‘
استاد بسم اللہ خاں نے شاگرد بنانے سے گریز کیا کیوں کہ وہ یہ خیال کیا کرتے تھے کہ وہ جو علم دیں گے، وہ ناکافی ہو گا جس کے باعث ان کے چند ہی شاگرد ہوئے جن میں ایس بالیش اور ان کے صاحب زادے استاد ناظم حسن نمایاں ہیں۔ انہوں نے ایس بالیش کے بارے میں یہاں تک کہا تھا کہ ’وہ انڈین کلاسیکی موسیقی میں شہنائی کے مستقبل کی ضمانت ہوں گے۔‘
سال 2006 میں جب بنارس کے مندر پر دہشت گرد حملہ ہوا تو استاد بسم اللہ خاں نے اس کے خلاف ناصرف آواز بلند کی بلکہ گنگا کنارے شہنائی بجا کر امن کا پیغام دیا۔ یہ ایک فنکار کا دہشت کے عفریت کے خلاف فطری ردِعمل تھا۔ یہ اس فنکار کا بدامنی کے خلاف تخلیقی اظہار تھا جس نے گاندھی اور نہرو کا انڈیا دیکھا تھا۔
استاد بسم اللہ خاں پانچ وقت کے نمازی تھے مگر موسیقی اور فن کی ہندو دیوی سرسوتی کے لیے بھی عقیدت رکھتے تھے۔ ان کی شہنائی کی گونج بلند ہوتی تو بابا وشوا ناتھ مندر کے دروازے کھلتے۔ وہ حقیقت میں اسلام کے پیغامِ امن کے پرچارک تھے اور برملا یہ کہا کرتے، ’دنیا ختم ہو بھی جائے تو موسیقی کو زوال نہیں آئے گا۔‘
استاد بسم اللہ خاں آج ہی کے دن 21 اگست 2006 کو 90 سال کی عمر میں چل بسے۔ ان کی وفات پر انڈین فوج نے 21 توپوں کی سلامی دی۔ وہ ایک ایسے فنکار تھے جن کی وجہ سے شہنائی کے ساز کو عالمی سطح پر پہچان ملی۔ ان کے اس فن کے اعتراف میں ہی بنارس ہندو یونیورسٹی اور شانتی نکتین یونیورسٹی نے استاد بسم اللہ خاں کو ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگریوں سے نوازا۔ اُن کی مگر نئی دہلی کے انڈیا گیٹ پر شہنائی بجانے کی خواہش ادھوری ہی رہی۔
استاد بسم اللہ خاں کی یہ بنارس سے محبت تھی کہ ان کو موت بھی اسی شہر میں نصیب ہوئی۔ ان کے فن پر مسلمانوں نے ہی نہیں بلکہ ہندوؤں سمیت تمام مذاہب کے لوگوں نے یکساں طور پر دکھ کا اظہار کیا۔ یہ ایک ایسے فن کار کی موت تھی جو سنگیت کے ذریعے محبت کے فروغ کا داعی تھا، جس نے تین دہائیاں قبل لندن کے کوئین الزبتھ ہال میں کھلے بندوں یہ کہا تھا، ’سنگیت ایسی چیز ہے، خوب ذہن نشین رکھیے، یہ جہاں بھی ہوگا سب ایک ہو جائیں گے۔‘ اور انہوں نے اپنے فن سے، اپنے سنگیت سے ان دوریوں کو پاٹ کر دکھا دیا اور یہی ایک حقیقی فنکار کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔