دی لانسیٹ طبی جریدے میں شائع ہونے والی تحقیق میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ اسرائیل اور حماس جنگ کے پہلے 9 ماہ کے دوران غزہ میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد فلسطینی وزارت صحت کے ریکارڈ کے مقابلے میں 40 فیصد زیادہ ہے۔
روئٹرز کے مطابق سات اکتوبر 2023 کو فلسطینی عسکریت پسند گروپ کے غیرمعمولی حملے کے جواب میں اسرائیل نے حماس کے خلاف اپنی فوجی مہم شروع کی، جس کے نتیجے میں غزہ میں مرنے والوں کی تعداد ایک متنازع موضوع بن چکی ہے۔
گزشتہ برس کے 30 جون تک حماس کے زیرانتظام غزہ میں وزارت صحت نے جنگ کے دوران 37 ہزار 877 اموات کو رپورٹ کیا۔ تاہم ایک نئی تحقیق میں وزارت صحت کے ڈیٹا، آن لائن سروے اور سوشل میڈیا پر شائع تعزیتی پوسٹوں کو اکٹھا کرنے کے بعد اندازہ لگایا گیا ہے کہ غزہ میں اب تک شدید زخموں کے نتیجے میں 55 ہزار 298 اور 78 ہزار 525 کے درمیان اموات ہو چکی ہیں۔
مزید پڑھیں
-
اسرائیل اور حماس میں مذاکرات بحال، غزہ پر نئے حملے میں 30 ہلاکNode ID: 883944
اس تحقیق کے مطابق ’یہ تعداد غزہ کی جنگ سے پہلے کی آبادی کا دو اعشاریہ 9 فیصد ہے، یعنی تقریباً ہر 35 افراد میں سے ایک شخص۔‘
برطانیہ کی زیر قیادت محققین کے گروپ نے اندازہ لگایا کہ 59 فیصد اموات خواتین، بچوں اور عمر رسیدہ افراد کی تھیں۔
یہ تعداد صرف تکلیف دہ زخموں سے ہونے والی اموات کی ہے، اس میں صحت کی دیکھ بھال یا خوراک کی کمی یا ہزاروں لاپتہ افراد کو شامل نہیں کیا گیا جو ملبے کے نیچے دبے ہوئے ہیں۔
دوسری جانب اے ایف پی آزادانہ طور پر ہلاکتوں کی تعداد کی تصدیق کرنے سے قاصر ہے۔
جمعرات کو غزہ کی وزارت صحت نے کہا کہ 15 ماہ کی جنگ میں 46 ہزار اور چھ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
اسرائیل میں حماس کے حملے کے نتیجے میں 1208 افراد ہلاک ہوئے، جن میں زیادہ تر عام شہری تھے۔
اسرائیل نے بارہا غزہ کی وزارت صحت کے اعداد و شمار پر سوال اٹھایا ہے لیکن اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ یہ اعداددوشمار قابل اعتماد ہیں۔
محققین نے اعدادوشمار کے لیے ایک طریقہ استعمال کیا، جسے ’کیپچر۔ ریکیپچر‘ کہا جاتا ہے۔ یہ طریقہ دنیا بھر میں تنازعات میں ہونے والی اموات کا اندازہ لگانے کے لیے استعمال ہو چکا ہے۔
تحقیق میں تین مختلف فہرستوں کے اعداد و شمار کا استعمال کیا گیا، پہلی فہرست غزہ کی وزارت صحت کی طرف سے فراہم کی گئی۔ یہ فہرست ہسپتالوں اور مردہ خانوں سے بنائی گئی تھی۔
دوسری فہرست وزارت صحت کی جانب سے شروع کیے گئے ایک آن لائن سروے کی تھی جس میں فلسطینی شہریوں نے رشتہ داروں کی ہلاکت کی اطلاع دی تھی۔
تیسری فہرست ایکس، انسٹاگرام، فیس بک اور واٹس ایپ سے پر تعزیتی پوسٹوں سے مرتب کی گئی۔
لندن سکول آف ہائیجین اینڈ ٹراپیکل میڈیسن کی وبائی امراض کی ماہر اور تحقیق کی رکن زینہ جمال الدین نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’ہم نے تحقیق میں صرف ان لوگوں کو رکھا جن کی موت کی تصدیق ان کے رشتہ داروں، مردہ خانے یا ہسپتال نے تھی۔‘
امریکہ میں ہیومن رائٹس ڈیٹا اینالیسس گروپ کے سٹیٹسٹیشن پیٹرک بال نے گوئٹے مالا، کوسوو، پَرو اور کولمبیا میں ہونے والے تنازعات کے دوران ہلاکتوں کی تعداد کا اندازہ لگانے کے لیے ’کیپچر۔ ری کیپچر‘ کا طریقہ استعمال کیا۔
پیٹرک بال نے اے ایف پی کو بتایا کہ صدیوں سے اس تکنیک کو استعمال کیا جا رہا ہے، محققین نے غزہ کے حوالے سے صحیح اندازہ لگایا ہے۔
اس تحقیق میں لاپتہ افراد کو شامل نہیں کیا گیا۔ اقوام متحدہ کے انسانی ہمدردی کے ادارے اوچا نے کہا ہے کہ غزہ کے تقریباً 10 ہزار افراد کے ملبے تلے دبے ہونے کا خدشہ ہے۔
دوران جنگ صحت کے لیے ناکافی سہولیات، خوراک، پانی، صفائی کی کمی یا بیماریوں کے پھیلاؤ کی وجہ سے بھی اموات ہو سکتی ہیں۔
لندن سکول آف ہائیجین اینڈ ٹراپیکل میڈیسن کی وبائی امراض کی ماہر اور تحقیق کی رکن زینہ جمال الدین نے کہا کہ ان کو نئی تحقیق کے حوالے سے تنقید آنے کی توقع ہے۔