Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کوئٹہ: کوئلہ کان میں پھنسے 11 کان کنوں کو 20 گھنٹے بعد بھی نہیں نکالا جا سکا

چیف انسپکٹر مائینز نے کہا کہ باقی کان کنوں کے بھی زندہ بچ جانے کے امکانات بہت کم ہیں۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
کوئٹہ کے قریب کوئلہ کی ایک کان میں گیس کے دھماکے کے بعد 12 کان کن ہزاروں فٹ کی گہرائی میں پھنس گئے۔
حکام کے مطابق اب تک ایک کان کن کی لاش نکالی جا چکی ہے۔ باقی کان کنوں کو 20 گھنٹے گزرنے کے باوجود بھی نہیں نکالا جا سکا۔ کان کنوں کے زندہ بچ جانے کے امکانات معدوم ہوتے جا رہے ہیں۔
چیف انسپکٹر مائنز بلوچستان عبدالغنی نے اردو نیوز کو بتایا کہ حادثہ جمعرات کی شام کو کوئٹہ سے تقریباً 40 کلومیٹر دور سنجیدی میں پیش آیا جہاں یونائیٹڈ کمپنی کی ایک کوئلہ کان میں میتھین گیس بھر جانے سے دھماکہ ہوا۔
انہوں نے بتایا کہ دھماکے کے بعد کان منہدم ہوگئی اور 12 کان کن دو سے چار ہزار فٹ کی گہرائی میں پھنس گئے۔
ابتدائی اطلاعات کے مطابق متاثرہ کان کنوں کا تعلق خیبر پختونخوا سے ہے۔ واقعہ کی اطلاع ملتے ہی کوئلہ کان کنوں نے اپنی مدد آپ کے تحت ساتھیوں کو باہر نکالنے کی کوششیں کیں تاہم مشنری نہ ہونے کی وجہ سے انہیں پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ کوئٹہ سے مائنز انسپکٹریٹ اور پی ڈی ایم اے کی ریسکیو ٹیمیں طلب کی گئیں۔
چیف انسپکٹر مائنز عبدالغنی کے مطابق ملبے کی وجہ سے کان میں داخل ہونے کا راستہ بند ہو گیا ہے جس وجہ سے امدادی سرگرمیوں میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ داخلی حصے سے ملبہ ہٹایا جا رہا ہے، اس دوران متبادل راستہ ڈھونڈ کر ریسکیو ورکرز کو نیچے اتارا گیا ہے، جنہوں نے اب تک ایک کان کن کی لاش تقریباً دو ہزار فٹ کی گہرائی سے نکال لی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ باقی کان کنوں کے بھی زندہ بچ جانے کے امکانات بہت کم ہیں کیونکہ حادثے کو 20 گھنٹے سے زائد ہو چکے ہیں۔

دکی میں 20 کان کنوں کی ہلاکت کے خلاف ورکرز نے احتجاجی مظاہرہ کیا تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

پی ڈی ایم اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر ریسکیو اصغر جمالی کے مطابق کان کے داخلی دروازے سے ملبہ کو بھاری مشنری کے ذریعے ہٹا دیا گیا ہے۔
امدادی سرگرمیوں میں حصہ لینے والے کان کنوں کے مطابق کان میں بجلی کی ایک ہی لائن تھی جو حادثے میں تباہ ہوگئی۔ کان میں ہوا اور آکسیجن کی رسائی پنکھوں کے ذریعے یقینی بنائی جاتی ہے۔ پنکھے چلانے کے لیے بجلی کی دوسری لائن بچھانے اور ملبہ ہٹانے کی وجہ سے امدادی سرگرمیاں تاخیر کا شکار ہوئیں۔
ایک کان کن عبدالرحمان نے بتایا کہ دھماکہ اتنا شدید تھا کہ کان کا ایک بڑا حصہ بیٹھ گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اب قریب واقع دوسری کان سے گہرائی میں متاثرہ کان تک متبادل راستہ بنایا جارہا ہے۔
کوئٹہ، مستونگ، کچھی، ہرنائی، دکی سمیت بلوچستان کے کئی اضلاع میں کوئلہ کے وسیع ذخائر پائے جاتے ہیں۔ ان کوئلہ کانوں میں 70 ہزار سے زائد کان کن کام کرتے ہیں جن میں سے اکثریت کا تعلق خیبر پختونخوا اور افغانستان سے ہوتا ہے۔
کوئلہ کانوں میں حفاظتی انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے حادثات معمول ہیں۔ مائنز انسپکٹریٹ کے مطابق گزشتہ سال 46 حادثات میں 82 کان کن حادثات کا شکار ہوکر ہلاک ہوئے۔
تاہم پاکستان سینٹرل مائنز لیبر فیڈریشن کے سیکریٹری جنرل لالہ سلطان کے مطابق حادثات کا شکار ہونے والے کان کنوں کی اصل تعداد زیادہ ہے۔ حکومتی ادارے، کان مالکان اور ٹھیکیدار حادثات اور اس میں ہونے والے نقصانات کو چھپاتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ہمارے اعداد و شمار کے مطابق 2024 میں صرف بلوچستان میں حادثات میں 129 کان کنوں کی موت ہوئی۔
مقامی کان کنوں نے بتایا کہ ’حادثہ جس کان میں پیش آیا وہ یونائیٹڈ کول کمپنی کی ملکیت ہے جو حفاظتی انتظامات کا خیال نہ رکھنے کے لئے بدنام ہے اس کمپنی کی کان میں گزشتہ سال جون میں بھی ایک حادثے میں 11 کان کنوں کی موت ہوئی، جبکہ دو دیگر حادثات میں تین کان کنوں کی بینائی متاثر ہوئی۔
کان کنوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کے مطابق ان حادثات کی تحقیقات درست طریقے سے نہیں کرائی گئی اور اب تک پچھلے حادثات پر کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔

گزشتہ کئی برسوں میں پاکستان میں کان کے دب جانے کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

چیف انسپکٹر مائنز عبدالغنی کا کہنا ہے کہ ہم نے تحقیقات مکمل کر لی تھیں اور اب معاملہ عدالت میں ہے۔
مائنز لیبر فیڈریشن کے لالہ سلطان کہتے ہیں کہ اب تک کسی حادثے کے ذمہ دار کے خلاف خاطر خواہ کارروائی نہیں کی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ کان مالکان اور ٹھیکیدار حفاظتی انتظامات اور نہ ہی کانکنوں کی زندگی کی کوئی پرواہ کرتے ہیں جس کی وجہ سے ہر سال سینکڑوں کان کن لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔
لالہ سلطان کے مطابق آئے روز کے حادثات اور بڑے پیمانے پر جانی نقصانات کے باوجود حکومت کی جانب سے اب تک کانوں میں ریسکیو کے لیے کوئی باقاعدہ نظام نہیں بنایا گیا۔ ہر حادثے کے بعد کوئٹہ سے ٹیمیں بلائی جاتی ہیں لیکن ان سرکاری ریسکیو ٹیموں کے اہلکار بھی کان کے اندر نہیں اترتے۔
ان کے مطابق ’سارا کام کان کن خود کرتے ہیں جو اپنے ساتھیوں کو بچانے کے لیے اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر ہزاروں فٹ نیچے اترتے ہیں اور دوسروں کو بچانے کی کوششوں میں خود بھی جانیں گنوا دیتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے حکومت کو تجویز دی تھی کہ کوئلہ کے ذخائر والے علاقوں میں ریسکیو ٹیمیں بناکر اس میں کان کنوں کو بھرتی کیا جائے تاکہ حادثات کی صورت میں بروقت امدادی سرگرمیاں شروع کی جا سکیں۔‘
لالہ سلطان کے مطابق کانوں میں ہوا اور آکسیجن کے گزر کو یقینی بنانے کے لیے صرف 40 سے 50 ہزار روپے مالیت کے پنکھے کی ضرورت ہوتی ہے مگر کان مالکان اتنی معمولی رقم بھی خرچ نہیں کرتے۔ اسی طرح گیس جانچنے والے آلات اور نہ ہی کان کو منہدم ہونے سے بچانے کے لیے معیاری لکڑی کا استعمال کیا جاتا ہے۔

2020 میں ضلع مہمند میں ماربل کی کان بیٹھنے سے 18 کان کن ہلاک ہوئے تھے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے بتایا کہ کوئلہ کانوں میں پابندی کے باوجود بارود کا استعمال کیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے کانوں میں کریک پڑجاتے ہیں اور حادثے کی صورت میں وہ بیٹھ جاتی ہے۔
مائنز لیبر فیڈریشن کے عہدے دار نے بتایا کہ 2011 میں پی ایم ڈی سی کی کان میں 43 کان کن، 2018 میں گیلانی کمپنی کی کان میں 19 کان کن اسی طرح 2019 میں ڈیگاری کی ایک کان میں بھی 10 کانکنوں کی موت ہوئی۔
ان کے بقول ’یہ سارے حادثات کانوں میں بارود کے استعمال کی وجہ سے پیش آئے لیکن عدالت کی جانب سے بلیک لسٹ ہونے اور پابندی کے باوجود حادثات کے ذمہ دار ٹھیکیدار اب تک کام کر رہے ہیں۔‘
انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان نے نومبر 2022 میں فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں بلوچستان میں کان کنی کے شعبے میں بڑھتے ہوئے خطرات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ کوئلہ کے مزدوروں کو دوہرے خطرات درپیش ہیں۔  وہ نہ صرف صحت و حفاظت کے انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے حادثات کا شکار ہو رہے ہیں بلکہ مذہبی اور قوم پرست عسکریت پسندوں کے ہاتھوں اغوا اور قتل بھی کیے جا رہے ہیں۔
گزشتہ سال اکتوبر میں دکی میں نامعلوم عسکریت پسندوں نے کوئلہ کانوں پر حملہ کرکے 20 کان کنوں کو قتل کر دیا تھا۔ اس حادثے کے بعد دکی اور ہرنائی سمیت بلوچستان کے دیگر علاقوں میں کوئلہ کانوں میں کام کرنے والے ہزاروں کان کن کام چھوڑ کر آبائی علاقوں کو چلے گئے تھے۔

شیئر: