Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بلوچستان کے علاقے دکی میں کوئلے کی کانوں پر فائرنگ، 20 مزدور قتل

کان مالک حاجی خیراللہ کے مطابق مارے جانے والے کان کنوں کا تعلق بلوچستان کے پشتون بیلٹ سے ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
بلوچستان کے ضلع دکی میں نامعلوم شدت پسندوں نے کوئلہ کان میں کام کرنے والے مزدوروں پر حملہ کیا ہے جس کے نتیجے میں کم از کم 20 مزدور ہلاک اور سات زخمی ہو گئے ہیں۔
واقعہ کے خلاف دکی میں آل پارٹیز کی اپیل پر شٹر ڈاؤن ہڑتال کی جارہی ہے۔ مزدور تنظیموں نے بھی لاشیں شہر کے مرکز باچا خان چوک پر رکھ کر احتجاج شروع کر دیا ہے۔
حکام کے مطابق واقعہ کوئٹہ سے تقریباً 220 کلومیٹر دور  ضلع دکی میں جمعرات اور جمعے کی درمیانی شب پیش آیا۔
ایس پی دکی آصف شفیع نے اردو نیوز کو بتایا کہ 30 سے 40 مسلح حملہ آوروں نے دکی شہر سے تقریباً آٹھ سے دس کلومیٹر دور جنید کول کمپنی ایریا میں کوئلہ کانوں میں کام کرنےوالے مزدوروں کی رہائشی کوارٹرز پر حملہ کیا۔
پولیس افسر کے مطابق حملے کے وقت زیادہ تر کانکن رات کو کان سے باہر نکل کر اپنے کچے کمروں میں سو رہے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ حملہ آوروں نے ٹولیوں کی شکل میں مختلف رہائشی کوارٹرز جاکر مزدوروں کو اندھا دھند گولیوں کا نشانہ بنایا۔
ایس پی کے مطابق کوئلہ کانوں کی سکیورٹی پر مامور نجی محافظوں نے کچھ دیر مزاحمت کی لیکن حملہ آوروں کے پاس جدید اسلحہ، راکٹ اور دستی بم تھے جس کی وجہ سے وہ غالب آ گئے۔
ایس پی کا کہنا ہے کہ فائرنگ اور دھماکوں کا یہ سلسلہ ڈیڑھ گھنٹے تک جاری رہا۔
ایس ایچ او دکی ہمایوں ناصر کے مطابق حملہ آوروں نے متعدد انجنوں سمیت کوئلہ نکالنے میں استعمال ہونےوالی مشینری کو بھی نذر آتش کیا۔
ایس پی دکی آصف شفیع نے 20 مزدوروں کی ہلاکت اور سات کے زخمی ہونے کی تصدیق کی اور بتایا کہ نشانہ بننے والے سارے مزدور پشتون ہیں۔

واقعے کے خلاف دُکی شہر میں ہڑتال کی جا رہی ہے۔ فوٹو: فرید خان کاکڑ

ایس پی کے مطابق مقتولین میں تین کا تعلق افغانستان جبکہ باقیوں کا تعلق بلوچستان کے پشتون اکثریتی اضلاع ژوب ، قلعہ سیف اللہ، لورالائی، قلعہ سیف اللہ، پشین، موسیٰ خیل اور کوئٹہ سے تھا۔
ڈسٹرکٹ کونسل دکی کے چیئرمین حاجی خیر اللہ ناصر جو کوئلہ کان کے مالک بھی ہیں نے اردو نیوز کو واقعہ کی تفصیلات بتائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ حملہ رات ساڑھے گیارہ بجے شروع ہوا اور تقریباً دو بجے تک جاری رہا۔
ان کا کہنا تھا کہ حملہ آوروں کے پاس نہ صرف جدید ہتھیار، راکٹ لانچر بلکہ ڈرون تھے جن کی مدد سے وہ جھاڑیوں اور درختوں کی آڑ میں چھپنے والے مزدوروں کو بھی تلاش کررہے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ حملے کے فوری بعد انہوں ضلع میں موجود اعلیٰ سکیورٹی افسران اور آئی جی پولیس تک سے رابطہ کیا مگر علاقہ صرف ڈیڑھ کلومیٹر دور ہونے کے باوجود صبح روشنی ہونے تک پولیس اور سکیورٹی فورسز جائے وقوعہ تک نہیں پہنچیں ۔
ان کا کہنا تھا کہ شہر رات بھر فائرنگ اور دھماکوں سے گونجتا رہا مگر کوئی مزدوروں کی مدد کو نہیں آیا۔
حاجی خیر اللہ کا کہنا تھا کہ مزدوروں کی لاشیں اور زخمیوں کو بھی انہوں نے خود جاکر ہسپتال پہنچایا۔
سول ہسپتال دکی کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر جوہر خان شادوزئی نے بتایا کہ مزدوروں کو سر اور جسم کے مختلف حصوں میں نہ صرف گولیاں ماری گئی تھیں بلکہ ان کے جسم پر دستی بم کے ذرات سے لگنےو الے نشانات بھی تھے۔
انہوں نے بتایا کہ کئی مزدوروں کو ایک سے زائد گولیاں سروں میں ماری گئی تھیں جن کی وجہ سے ان کی موقع پر ہی موت ہو گئی تھی۔
ایم ایس کے مطابق بیشتر زخمیوں کو بھی گہرے زخم آئے ہیں جنہیں ابتدائی طبی امداد دینے کے بعد مزید علاج کے لیے کوئٹہ منتقل کردیا گیا۔ ایک زخمی کی حالت انتہائی تشویشناک تھی۔
ادھر واقعہ کے خلاف دکی میں تاجروں اور آل پارٹیز کی جانب سے شٹر ڈاؤن ہڑتال کی جا رہی ہے۔

مارے جانے والوں میں عبدالولی بارکزئی، غلام علی بارکزئی اور حیات اللہ بارکزئی کا تعلق افغانستان سے تھا۔ فوٹو: اللہ نور ناصر

پاکستان ورکرز فیڈریشن، نیشنل لیبر فیڈریشن اور دیگر مزدور تنظیموں نے بھی احتجاج کا اعلان کیا ہے۔ پاکستان ورکرز فیڈریشن کے ضلعی صدر شیر محمد کاکڑ کا کہنا ہے کہ بے گناہ اور نہتے مزدوروں کو بے دردی سے نشانہ بنایا گیا ہے جو اپنے بچوں کے لیے صرف دو وقت کی روٹی کمانے یہاں آئے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ دکی میں لگ بھگ 15 ہزار کانکن کام کرتے ہیں جو بدامنی سے متاثر ہو رہے ہیں۔
بلوچستان میں اس سے پہلے بھی کانکنوں، ٹرک ڈرائیوروں اور کوئلہ کان سے وابستہ افراد کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ زیادہ تر حملوں کی ذمہ داری ذمہ داری کالعدم بلوچ لبریشن آرمی کی جانب سے قبول کی جاتی رہی ہے  تاہم دکی واقعہ کی ذمہ داری اب تک کسی مسلح تنظیم نے قبول نہیں کی ہے۔
دکی کی ڈسٹرکٹ کونسل کے چیئرمین اور کوئلہ کان کے مالک حاجی خیراللہ ناصر نے دعویٰ کیا کہ کوئلہ کان مالکان اور مزدوروں کو لسانی بنیادوں پر سرگرم شدت پسند تنظیموں کی جانب سے کافی عرصہ سے دھمکیاں مل رہی ہیں۔ مسلح تنظیم نے اس سے پہلے بارہ کانکنوں کو اغوا کیا جن میں سے نو رہا ہو گئے جبکہ تین اب بھی ان کی قید میں ہیں۔
حاجی خیراللہ ناصر کا کہنا تھا کہ دکی میں ایک ہزار سے زائد چھوٹی بڑی کانیں ہیں یہاں سے ماہانہ اٹھارہ سے 20 ہزار ٹن کوئلہ نکالا جاتا ہے۔ روزانہ 120 گاڑیاں کوئلہ لے کر پنجاب اور ملک کے دوسرے صوبوں کو جاتی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ’کوئلہ کان مالکان سکیورٹی کے نام پر فی ٹن 220 روپے کے حساب سے ماہانہ تقریباً تین کروڑ روپے سکیورٹی فورسز کو ادا کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود ہمیں تحفظ حاصل نہیں، ہم سکیورٹی سے مطمئن نہیں۔‘
دکی کے ضلعی سربراہ ایس پی آصف شفیع نے اس بات کی تصدیق کی کہ بلوچ عسکریت پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی کی جانب سے دکی میں کوئلہ کان مالکان اور مزدوروں کے خلاف سرگرمیاں دیکھی گئی ہیں اور ممکن ہے کہ اس حملے میں بھی یہی تنظیم ملوث ہو لیکن اب تک کسی نے ذمہ داری قبول نہیں کی۔

دکی میں ایک ہزار سے زائد چھوٹی بڑی کانیں ہیں یہاں سے ماہانہ اٹھارہ سے 20 ہزار ٹن کوئلہ نکالا جاتا ہے۔ فوٹو: اللہ نور ناصر

ان کا کہنا تھا کہ ضلع میں دہشتگردی کے خطرات تو موجود تھے مگر ہمیں اس حملے سے متعلق مخصوص پیشگی خفیہ اطلاع نہیں تھی۔
پولیس کی جانب سے فراہم کی گئی ہلاک و زخمی مزدوروں کے ناموں کی گئی فہرست کے مطابق مرنے والوں میں عبدالولی بارکزئی، غلام علی بارکزئی اور حیات اللہ بارکزئی کا تعلق افغانستان سے تھا۔
چھ مقتولین جلال خروٹی، مولا داد لون، روزی خان لون ، فضل کاکڑ، عبدالمالک لون اور سید اللہ لون ژوب کے رہائشی تھے۔
 ملنگ تاروزئی، حمد اللہ گردیزئی اورعبداللہ بارکزئی کا تعلق پشین، نصیب اللہ غرشین ،سمیع اللہ میرزئی، عبداللہ میرزئی  ور نصیب اللہ کاکڑ کا تعلق ضلع قلعہ سیف اللہ  سے تھا۔
مقتول جلات خان ملاخیل لورالائی، عبدالصمد ضلع موسیٰ خیل، بسم اللہ کوئٹہ کے علاقے کچلاک جبکہ ولی ملاخیل ضلع ہرنائی کی تحصیل شاہرگ کا رہائشی تھا۔
زخمیوں میں حیات اللہ بارکزئی، عبداللہ بارکزئی، عطاء اللہ بارکزئی اور مجید گل بارکزئی کا تعلق افغانستان، پائے محمد اچکزئی  اور حضرت عمر بارکزئی کا تعلق پشین جبکہ جمعہ خان کاکڑ کا تعلق ژوب سے بتایا جاتا ہے۔  

شیئر: