Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی ادیب جو ایک صحرائی غار میں روسی ادب کا مطالعہ کرتے ہیں

وہ تنہا گھنٹوں غار میں بیٹھ کرروسی ادب کا مطالعہ کرتے ہیں (فوٹو: سکرین گریب)
سعودی ادیب عیاد مخلف جو شہری ہنگاموں اور روز مرہ کی گہما گہمی سے دور شمالی حدود کےشہر عرعر کے رہنے والے ہیں نے صحرا میں ایک غار کو اپنا عارضی مسکن بنا لیا۔
وہ آبادی سے دور صحرا کے اس غار میں تنہا گھنٹوں بیٹھ کر روسی ادب کا مطالعہ کرتے ہیں اور انسانی تمدن و ادب پر تنہائی میں غورو فکر کرتے رہتے ہیں۔
سعودی ٹی وی ایم بی سی کے ایک پروگرام میں انہوں نے بتایا’ صحرا کا ایک خاص مزاج ہے اسے وہی محسوس کرسکتا ہےجو یہاں وقت گزارے۔‘
’یہاں کی پرسکون خاموشی فطری حسن اور کھلی ہوا کا بھی اپنا لطف ہے۔ یہاں بیٹھ کرادب کا مطالعہ کرنے سےبہت سے ایسی گھتیاں سلجھ جاتی ہی جو شہر کے ہنگاموں میں سمجھ نہیں آتی۔‘
سعودی ادیب نے بتایا ’ ایک دن وہ اپنی عادت کے مطابق اس غار میں بیٹھے روسی مصنف میکسم گورکی کی کتاب کے مطالعہ میں غرق تھے کہ علاقے کے قبیلے کا سردار وہاں آئے اور انتہائی حیرت سے پوچھا اس تنہائی میں کیا کررہے ہو؟۔‘
میں نے از راہ مذاق کہا ’اس غار میں اللہ کی عبادت کرتاہوں‘ ، میرے اس جواب پر سردار نے ایسا اشارہ کیا جو کسی دیوانے کےلیے کیا جاتا ہے۔ اس پرمیں نے اسے کہا ’سردار تم اپنی راہ لو‘ ۔
سعودی ادیب کا یہ روز کا معمول ہے وہ یہاں تنہا گھنٹوں غار میں بیٹھ کرروسی ادب کا مطالعہ کرتے ہیں۔

صحرا کا ایک خاص مزاج ہے اسے وہی محسوس کرسکتا ہےجو یہاں وقت گزارے۔ (فوٹو: سکرین گریب)

انکا کہنا تھا کہ وہ روسی ادب کو بہت پسند کرتے ہیں اس میں بہت کچھ ہے اگرچہ میں کوئی کمیونسٹ نہیں ہو مگر روسی ادب مجھے بہت پسند ہے۔
ان کا کہنا تھا ’ روسی ادب میں انسانی احساسات کو ایسا بیان کیا جاتا ہے جیسے وہ مجسم آپکے سامنے ہوں۔ جیسا کہ برطانوی شاعر تھامس ایلیٹ کا کہنا تھا کہ ’عالمی ادب انسانوں کے رابطے کا بہترین ذریعہ ہے‘ اسی لیے میں ادب کا مطالعہ کرتا ہوں جس میں مجھے ان کے معاشروں کو قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملتا ہے۔

 

شیئر: