رومانیت پر مبنی عرب ادب حالیہ عشروں کے دوران تو اپنی آب و تاب دکھاتا ہی رہا ہے اور دکھا رہا ہے تاہم اس کے ہاں شاعری کی ایک ایسی روایت بھی موجود ہے جس کا دائرہ اس قدر قدیم ہے کہ اس وقت لکھ کر چیزوں کو محفوظ کرنے کا طریقہ کار وضع بھی نہیں ہوا تھا۔
عرب نیوز کے مطابق تحریر کی ایجاد سے بہت پہلے عرب قبائل میں یہ ایک عام سی بات تھی کہ شاعری کی شکل میں ایک دوسرے کو پیغام پہنچائے جاتے تھے۔
عربی شاعری کی مقبولیت کی وجہ اس کے عوام کے جذبات سے جڑی ہے اور خطے میں زندگی کی پیچیدگیوں کی عکاسی بھی کرتی ہے۔
اور ایک پرانی کہاوت میں بھی شاعری کو ’عربی کی کتاب‘ قرار دیا گیا ہے۔
مغربی ممالک کے قارئین کے لیے لفظ ’ادب‘ عام طور پر ایک تخیلاتی چیز ہے جیسا کہ ناول، افسانے، لوک کہانیاں، ڈرامہ، شاعری یا پھر ثقافت سے جڑی دوسرے معاملات وغیرہ۔
تاہم عربی ادب کا معاملہ اس سے کچھ مختلف اور پیچیدہ ہے اور اس میں ثقافت، آداب، شائستگی اور انسانیت وغیرہ شامل ہیں۔
جدید عربی ادب کا اپنے مخصوص عرب ذائقے تک کا سفر صدیوں پر محیط ہے اور کئی ادوار اور تجربات کے بعد یہاں تک پہنچا ہے۔
عربی ادب پانچویں صدی میں پھیلا اور اسلام کے سنہرے دور میں عروج تک پہنچا سات ویں اور 13 ویں صدی کے درمیان کے عرصے میں بھی خوب پھلا پھولا، تاہم اسلام کے دور سے قبل چھٹی صدی میں بھی ایسے شعرا موجود تھے جنہوں نے بہت شہرت حاصل کی۔
ان تاریخی کارناموں کی خوشی منانے کے لیے سعودی حکومت نے 2023 کو ’عربی شاعری کا سال‘ قرار دے رکھا ہے۔
مملکت کے وزیر ثقافت شہزادہ بدر بن عبداللہ بن فرحان نے اس کا اعلان کیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’سعودی شاعروں کی تخلیقی صلاحیتیں انہی ادبی تجربات کا تسلسل ہیں جن کی جڑیں تاریخی طور پر بہت گہری ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس سرزمین جس کو آج دنیا سعودی عرب کے طور پر جانتی ہے، اپنے قدیم ادوار سے ادب میں خصوصی مقام رکھتا ہے اور یہاں عظیم شعرا پیدا ہوئے جن میں امرو القیس، میمون بن قیس العشا، النبیغہ الذبیانی، زھیر بن ابی سلمی، عنترہ ابن شداد، طرفہ بن العبد، عمرو بن کلثوم اور لبید بن ربیعہ شامل ہیں۔‘
ادب میں شاعری اور نثر دونوں شامل ہیں۔ غزل یا رومانوی نظم ایک لمبی تاریخ رکھتی ہے۔
ادب پر کام کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ عربی کی 70 فیصد شاعری محبت سے متعلق ہے۔
ان میں رومانوی اظہار، جذباتی حساسیت سمیت بہت کچھ دکھائی دیتا ہے اور محبت کی کہانیاں سب پر غالب نظر آتی ہیں۔
یہ شاعری ہی ہے جس نے عرب دنیا کی بڑی رومانوی داستانوں کو محفوظ کیا جن میں حقیقت بھی ہے اور کسی حد تک افسانوی خیالات بھی۔
ایسی ہی ایک کہانی اسلام کے دور سے قبل کی ہے جو ایک جنگجو شاعر عنترہ بن شداد جو ایک عرب بادشاہ اور سیاہ فام لونڈی کے بیٹے تھے، کے حالات زندگی بتاتی ہے کہ وہ کیسے اپنی محبوبہ عبلہ بنت مالک کے لیے اپنے جذبات کا اظہار کرتے رہے۔
عرب سرزمین پر پیدا ہونے والے ابن شداد اپنی بہادری اور جرات بہت مشہور تھے تاہم ان کی یہ خصوصیت اس وقت پس منظر میں چلی گئی جب انہوں نے عبلہ کا ہاتھ مانگا اور دوسری جانب سے ایک ہزار انتہائی اور نایاب اونٹوں سمیت دیگر بے تحاشا سامان کا جہیز کے طور پر مطالبہ کیا گیا۔
اس کے بعد بن شداد کے پاس سوائے شاعری کے اپنے جذبات کا اظہار کرنے کا کوئی اور راستہ نہ رہا۔
انہوں نے برسہا برس اپنے محبوبہ کی یاد میں شاعری کی اور بالآخر شادی کے لیے رکھی جانے والی شرائط پوری کیں اورعبلہ کو پا لیا۔
عنترہ اورعبلہ کی یہ لافانی داستان محبت ہزاروں سال سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی زندہ ہے۔
بن شداد کی شاعری ان سات مشہور ترین نظموں اورغزلوں میں بھی شامل ہے جن کو آٹھویں صدی اکٹھا کیا گیا تھا۔
ان کی شاعری کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان کو سونے کندہ کر کے خانہ کعبہ کی دیواروں پر بھی آویزاں کیا گیا تھا۔
اسی طرح قیس بن الملوح اور ان کی محبوبہ لیلٰی العامریہ کی کہانی ساتویں صدی کی ہے جس میں ایک شخص دوسرے قبیلے کی خاتون کے عشق میں مبتلا ہو جاتا ہے، یہ کہانی دنیا بھر میں مشہور ہے اور اس پر کئی فلمیں بھی بن چکی ہیں۔
دونوں کو ملنے نہیں دیا جاتا جس پر قیس شاعری شروع کر دیتے ہیں اور لوگوں کو سناتے ہیں۔
اس کے بعد لیلٰی کی زبردستی شادی کر دی جاتی ہے جس کے بعد قیس صحراؤں میں نکل جاتے ہیں اور باقی زندگی غم میں گزارتے ہیں۔
اسی طرح دیگر عرب کہانیاں بھی بہت مشہور ہیں جبکہ اس سرزمین کے شعرا ماضی میں اپنی تخلیقی صلاحتیوں کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں اور آج بھی سعودی زمین ادب کے معاملے میں بہت زرخیز ہے۔