Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’ریکو ڈک منصوبے سے 37 برسوں میں 74 ارب ڈالر کے فری کیش فلو کی توقع ہے‘

بیرک گولڈ کمپنی کے سربراہ مارک برسٹو نے کہا ہے کہ منصوبے کا پہلا مرحلہ 2029 تک مکمل ہو جائے گا۔ فوٹو: روئٹرز
پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں واقع ریکو ڈک میں سونے اور تانبے کی کان آئندہ 37 برسوں میں کم از کم 74 ارب ڈالر کے فری کیش فلو کا ذریعہ ہو سکتی ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ریکو ڈک منصوبے میں سرمایہ کاری کرنے والی کمپنی بیرک گولڈ کے سربراہ مارک برسٹو نے کہا ہے کہ منصوبے کا پہلا مرحلہ 2029 تک مکمل ہو جائے گا اور اس دوران 2 لاکھ ٹن تانبے کی پیداوار متوقع ہے جس کی مجموعی لاگت 5.5 ارب ڈالر ہو گی۔
بیرک گولڈ کمپنی ریکوڈک منصوبے میں 50 فیصد حصے کی مالک ہے جبکہ بقیہ 50 فیصد حکومت پاکستان اور صوبہ بلوچستان کے درمیان مساوی بنیادوں پر تقسیم ہوگا۔
انٹرویو میں مارک برسٹو نے بتایا کہ دوسرے مرحلے میں 3.5 اب ڈالر کی لاگت کا اندازہ لگایا ہے جس سے پیداوار دگنی ہو جائے گی۔
ایک اندازے کے مطابق ریکوڈک کان میں موجود ذخائر سے آئندہ 37 برس تک فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے تاہم مارک برسٹو کا کہنا ہے کہ توسیع کے ذریعے اس سے زیادہ عرصے تک کان کنی کی جا سکتی ہے۔
گولڈ بیرک کمپنی ریلوے حکام اور انفراسٹرکچر کی فراہمی کے لیے متعلقہ عہدیداروں سے بھی بات چیت کر رہی ہے تاکہ قاسم بندرگاہ پر قائم کوئلے ٹرمینل کی تعمیر نو ہو سکے اور ملک کے اندر تانبے کی نقل و حمل اور اس کی برآمد کو ممکن بنانے کے لیے بنیادی ڈھانچہ تیار کیا جا سکے۔
کمپنی کے سربراہ مارک برسٹو کا کہنا ہے کہ منصوبے پر عمل درآمد طے شدہ وقت کے مطابق جاری ہے جبکہ فینسنگ اور سروے کا عمل مکمل ہو گیا ہے۔
پاکستان کے وزیر برائے پیٹرولیم مصدق ملک نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ سعودی عرب کی کان کنی کی کمپنی منارہ منرلز بھی اگلی دو سہ ماہیوں میں ریکو ڈک منصوبے میں سرمایہ کاری کر سکتی ہے۔
منارہ منرلز کے اعلیٰ عہدیداروں نے گزشتہ سال مئی میں منصوبے میں شراکت داری سے متعلق بات چیت کے لیے پاکستان کا دورہ کیا تھا 
مصدق ملک کا کہنا ہے کہ کان کنی میں مواقعوں کی تلاش کے لیے پاکستان دیگر خلیجی ممالک کے ساتھ بھی بات چیت کر رہا ہے۔

 

شیئر: