سوچیں آپ نے ہوائی جہاز کی فرسٹ کلاس ٹکٹ 2 ہزار ڈالر کی خریدی، اور آپ کے ساتھ بیٹھے مسافر نے وہی سیٹ 200 ڈالر کی خرید کر آپ جیسا ہی لگژری اور آرام دہ سفر کیا۔ آپ کو بھی یہ سن کر جھٹکا ضرور لگے گا۔
حال ہی میں امریکہ کی بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا جب چین کی تیار کردہ مصنوعی ذہانت کی ایپلی کیشن ڈیپ سیک نے اوپن اے آئی اور اس سے جڑی بڑی ٹیک کمپنیوں اور سرمایہ کاروں کی نیندیں اڑادیں۔
بلومبرگ کے مطابق امریکہ کی وال سٹریٹ کو 1 ٹریلین ڈالر کا نقصان جھیلنا پڑا اور اس کی وجہ یہ بنی کہ ڈیپ سیک نے اپنا نیا مصنوعی ذہانت پر مشتمل آر ون ماڈل لانچ کیا۔
جہاں امریکی کمپنی اوپن اے آئی کے چیٹ باٹ ’چیٹ جی پی ٹی‘ سمیت دیگر کمپنیوں نے مصنوعی ذہانت کی دنیا میں کئی سو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی وہیں چین کی ایک کمپنی نے صرف 60 لاکھ ڈالر میں چیٹ باٹ بنا کر عوام کے لیے مفت کر دیا۔
مزید پڑھیں
-
چیٹ جی پی ٹی سے انسانی امراض کی درست تشخیص؟Node ID: 800461
-
چیٹ جی پی ٹی، اے آئی چیٹ بوٹس سائبر سکیورٹی کے لیے ’خطرہ‘Node ID: 873246
-
صارفین اب چیٹ جی پی ٹی سے کال اور واٹس ایپ پر بھی بات کر سکیں گےNode ID: 883255
ڈیپ سیک کے مطابق ان کا چیٹ باٹ انتہائی مشکل سوالوں کے حل باآسانی تلاش کر سکتا ہے اور اس کی کارکردگی چیٹ جی پی ٹی جیسی ہی ہے، مگر اس پر آنے والی لاگت انتہائی کم ہے اور صارفین بغیر کوئی رقم ادا کیے اس کے تمام فیچرز استعمال کر سکتے ہیں۔
ڈیپ سیک کا آر ون بھی ایک اوپن سورس ماڈل ہے، یعنی دوسری کمپنیاں اس کے کوڈ تک رسائی حاصل کرتے ہوئے متبادل مصنوعی ذہانت کے ماڈلز ایجاد کر سکتی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ ایک ہفتے میں ڈیپ سیک چیٹ جی پی ٹی کو پیچھے چھوڑتے ہوئے ایپل کے ایپ سٹور پر موجود فری ایپلی کیشنز میں سرفہرست آچکی ہے۔
قابل غور بات یہ ہے کہ ڈیپ سیک اس وقت سامنے آیا جب امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ ہفتے مصنوعی ذہانت میں بڑی کمپنیوں کی شراکت کے ساتھ 5 سو ارب ڈالر کے ’سٹار گیٹ اے آئی‘ منصوبے کا اعلان کیا۔
ٹینکالوجی کی دنیا میں روایتی سوچ یہ ہے کہ مصنوعی ذہانت کی کمپنیوں کو اپنے سسٹمز کو ٹرین کرنے کے لیے مہنگی اور جدید ترین کمپیوٹر چپس کی ضرورت ہوتی ہے جو زیادہ کمپیوٹنگ پاور مہیا کرتے ہوئے ٹیکنالوجی کا بوجھ اٹھا سکتے ہیں۔
جہاں ان کمپنیوں کو بہترین کمپیوٹنگ چپس کی ضرورت پیش آتی ہے وہیں این ویڈیا نامی کمپوٹنگ چپس بنانے والی کمپنی ان ضروریات کو پورا کرنے میں سرفہرست نظر آتی ہے۔
تاہم ڈیپ سیک کے آنے سے یہ تاثر دم توڑ گیا کہ مصنوعی ذہانت میں کامیابی کے لیے مہنگی چپس اور ٹیکنالوجی درکار ہے، اور اس کا براہ راست اثر این ویڈیا کی مالیت پر پڑا۔
گزشتہ روز امریکی سٹاک مارکیٹ میں بد ترین مندی کی کیفیت نظر آئی اور این ویڈیا کی مالیت میں 600 ارب ڈالر کی کمی واقع ہوئی۔
سٹاک مارکیٹ 1 ٹریلین ڈالر کے نقصان سے گزری اور اس میں مصنوعی ذہانت کی صنعت کے بڑے نام جیسے کہ مائیکروسافٹ، گوگل، میٹا اور دیگر کی سٹاک مالیت میں گراوٹ آئی۔
صرف یہ ہی نہیں، امریکہ کے ٹیک ارب پتیوں کی جیب سے مجموعی طور پر 108 ارب ڈالر بھی نکل گئے۔
این ویڈیا کا ردعمل کیا تھا؟
بلومبرگ کو ایک بیان میں این ویڈیا کے ترجمان نے کہا کہ ڈیپ سیک مصنوعی ذہانت کی دنیا میں ایک ترقی ہے.
ترجمان کا کہنا تھا کہ ’یہ ظاہر کرتا ہے کہ کس طرح ایک کمپنی ٹیسٹ ٹائم سکیلنگ کے طریقہ کار کو استعمال کرتے ہوئے نئے اے آئی ماڈلز بنا سکتی ہے، اور وہ بھی بڑے پیمانے پر دستیاب ماڈلز اور کمپیوٹ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جو مکمل طور پر ایکسپورٹ کنٹرولڈ ہیں۔
واضح رہے این ویڈیا وہ کمپنی ہے جس نے ڈیپ سیک کے آنے پر سب سے زیادہ نقصان اٹھایا اور اپنی حصص میں 17 فیصد کمی آتے دیکھی۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے کیا کہا؟
کچھ گھنٹے قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ملک کی ٹیکنالوجی کمپنیوں کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ ڈیپ سیک کے بعد ہماری انڈسٹری کو جاگ جانا چاہیے۔
ٹرمپ نے کہا کہ ہمیں اب دھیان بڑھانے کی ضرورت ہے۔ یہ ہمارے لیے مثبت چیز ہو سکتی ہے، ہم اربوں ڈالرز خرچ کرنے کی بجائے کم قیمت میں ایسا ہی حل نکال سکیں گے۔
چیٹ جی پی ٹی کے مالک سیم آلٹمین کا ردعمل
اوپن اے آئی کے بانی سیم آلٹمین نے کہا کہ مارکیٹ میں نئے حریف کا آنا ہمارے لیے حوصلہ افزائی کی بات ہے۔
سیم آلٹمین نے ڈیپ سیک کو ایک بہترین ماڈل قرار دیا، خاص کر اس کی کم لاگت کی وجہ سے۔
ڈیپ سیک نے ایسا کیا کیا جو گوگل، میٹا اور اوپن اے آئی نہ کر پائے؟
ڈپ سیک کے آنے سے ایک بات ظاہر ہوئی کہ ضرورت اب بھی ایجاد کی ماں ہے۔ امریکی کمپنیوں کے مقابلے میں ڈیپ سیک کی ’فریکشنل کمپیوٹ‘ کی شدت اہم پیش رفت کا نتیجہ ہے۔
لارج لینگؤج ماڈلز (ایل ایل ایم) کے سکالرز کی تحقیق کے مطابق ڈیپ سیک کا ماڈل ہر وقت تمام سلنڈروں پر فعال نہیں ہوتا ہے بلکہ کمپیوٹ سائیکل کے مختلف مراحل میں فعال ہوتا ہے۔ یہ پیش گوئی کرتا ہے کہ ماڈل کے کس حصے کو فعال کرنے کی ضرورت ہوگی اور اس طرح کمپیوٹیشنل بوجھ کو کم سے کم رکھتا ہے۔
یہ میٹا، گوگل اور اوپن اے آئی کے ایل ایل ایم سے بالکل مختلف ہے۔ محفوظ کمپیوٹیشنل آؤٹ پٹ ڈیپ سیک کی ایک اہم پیش رفت ہے جو ’KV کیشے کمپریشن‘ کے ذریعے ممکن ہوئی۔ مطلب یہ کہ ان کے انجینئرز میموری کی محدود ایپلی کیشنز میں زیادہ معلومات گزارنے میں کامیاب ہوئے اور اسی وجہ سے ڈیپ سیک پر لاگت بہت کم آئی۔
ایک اور رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی کہ ڈیپ سیک نے این ویڈیا کی H100 چپس کا استعمال کیا جن کی امریکہ سے چین برآمد پر اکتوبر 2023 تک اجازت تھی۔ پابندی کے بعد ان سستی چپس کو دوسری ہلکی چپس سے جوڑ کر یہ ٹیکنالوجی کم لاگت میں تیار کی گئی۔
واضح رہے امریکی مائیکرو چپ ایکسپورٹ کنٹرولز چین کے سپر کمپیوٹرز کی ترقی کو منجمد کرنے کے لیے بنائے گئے تھے جو جوہری ہتھیاروں اور مصنوعی ذہانت کے نظام کو تیار کرنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔
ڈیپ سیک کس کی ایجاد ہے؟