Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

چیٹ جی پی ٹی، اے آئی چیٹ بوٹس سائبر سکیورٹی کے لیے ’خطرہ‘

حکومت نے صارفین پر زور دیا ہے کہ وہ چیٹ جی پی ٹی یا مصنوعی ذہانت کے چیٹ بوٹس استعمال کرنے میں احتیاط برتیں۔ (فوٹو: گوگل)
پاکستان کی وفاقی حکومت نے جمعرات کے روز چیٹ جی پی ٹی اور اے آئی چیٹ بوٹس کے استعمال کے متعلق ایک ایڈوائزری جاری کرتے ہوئے اس کو سائبر سکیورٹی کے لیے ایک خطرہ قرار دیا ہے۔
حکومت نے اس ٹیکنالوجی کو استعمال کرنے والے افراد سے کہا ہے کہ وہ احتیاط برتیں اور اپنے ڈیٹا کو محفوظ بنائیں۔
کابینہ ڈویژن کی جانب سے جاری ہونے والی اس ایڈوائزری میں کہا گیا ہے کہ مصنوعی ذہانت پر مبنی چیٹ بوٹ  کے ذریعے بہت سے بین الاقوامی ادارے مصنوعی ذہانت پر مبنی ٹولز کو اپنے آپریشن میں شامل کررہے ہیں، اور ان کے استعمال سے حساس معلومات اکھٹی کر رہے ہیں۔
ایڈوائزری کے مطابق ان فورمز پر دی جانے والی معلومات کا تمام ڈیٹا محفوظ کرلیا جاتا ہے، جس میں صارفین کی ذاتی نوعیت کی معلومات بھی شامل ہوتی ہیں۔
 ایڈوائزری کے مطابق ان اے آئی ٹولز کی بدولت سافٹ ویئر کوڈ، ذاتی کمیونکیشن، بزنس سٹریٹیجی اور دیگر معلومات محفوظ ہوجاتی ہیں۔
حکومت کی جانب سے کہا گیا ہے کہ صارفین چیٹ جی پی ٹی یا مصنوعی ذہانت کے چیٹ بوٹ استعمال کرنے میں احتیاط برتیں اور اپنا حساس ڈیٹا یا معلومات چیٹ باٹ میں شئیر نہ کریں۔
ایڈوائزری میں ہدایات دی گئی ہیں کہ چیٹ بوٹس استعمال کرنے والے افراد چیٹ کو محفوظ کرنے والے فیچر کو غیر فعال کرلیں یاچیٹ بوٹ سے کمیونکیشن کو مینوئل طریقے سے ڈیلیٹ کردیں۔
حکومت نے مختلف اداروں کو بھی ہدایات جاری کی ہیں کہ وہ اپنا ڈیٹا محفوظ بنانے کے لیے اقدامات کریں۔

حکومتی ایڈوائزری میں بتایا گیا ہے کہ مال ویئر فری چاٹ بوٹ استعمال کیا جاسکتا ہے۔ (فوٹو: گیٹی امیجز)

 ایڈوائزری میں کہا گیا ہے کہ مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی میں بتدریج اضافہ ہورہا ہے، اس لیے اداروں کو اپنے سسٹمز کو وقت کے ساتھ اپڈیٹ کرتے رہنا چاہیے اور وہ اپنے ملازمین کو بھی چیٹ بوٹ سے متعلق مناسب تربیت فراہم کریں۔ چیٹ بوٹ کے استعمال کے لیے کمپیوٹر سسٹم کو الگ سے مختص کریں۔
تاہم ایڈوائزری میں بتایا گیا ہے کہ مال ویئر فری چاٹ بوٹ استعمال کیا جاسکتا ہے۔
اس ایڈوائزری کے متعلق بات کرتے ہوئے سائبر سکیورٹی کے ماہر عمار جعفری نے اردو نیوز کو بتایا کہ چیٹ جی پی ٹی کے استعمال کے دوران ڈیٹا منتقل ہونے کے خدشات درست ہیں۔
’دنیا کے مختلف ادارے حساس ڈیٹا کے حصول کے لیے چیٹ بوٹس کا استعمال کرتے ہیں اور جب صارفین مختلف معلومات کے لیے سرچ بوٹس میں اپنے سوالات درج کرتے ہیں تو یہ ادارے ان کا ڈیٹا اکٹھا کر لیتے ہیں اور پھر اس کے ذریعے ان افراد اور ان کے ممالک کے متعلق سکیورٹی تجزیات کرتے ہیں۔‘

حکومتی ایڈوائزری کے مطابق چیٹ جی پی ٹی اور چیٹ بوٹس پر دی جانے والی معلومات کا تمام ڈیٹا محفوظ کرلیا جاتا ہے۔ (فوٹو: گیٹی امیجز)

عمار جعفری کے مطابق چیٹ بوٹس سے جتنے بھی سوالات پوچھے جاتے ہیں وہ کہیں نہ کہیں محفوط ہو رہے ہوتے ہیں اور پھر ان بوٹس کو لانچ کرنے والے ادارے ان سوالات کے ذریعے بننے والے متعلقہ ممالک کے ڈیٹا کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
فرض کریں کہ پاکستان میں لوگ حکومت کے مختلف شعبوں یا سکیورٹی سے متعلقہ معلومات کے لیے مختلف چیٹ بوٹس پر سوال بھیجتے ہیں تو ان چیٹ باٹس کو بنانے یا لانچ کرنے والے ادارے ان سوالات اور ان کے متعلق معلومات کا ڈیٹا ایک ہی جگہ محفوظ کر کے اس کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔‘
تاہم عمار جعفری کا کہنا تھا کہ پاکستانی صارفین کے پاس معلومات لینے کے لیے ٹولز کم ہیں اور خطرات کے باوجود کہیں نہ کہیں ان چیٹ بوٹس کو استعمال کرنا پڑ جاتا ہے۔
’اس لیے ان کو استعمال کرتے ہوئے احتیاط برتنی چاہیے اور صارفین کو حتی الامکان سائبر سکیورٹی کے امور سے متعلق آگاہی حاصل کرنی چاہیے۔‘

شیئر: