Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستانی نژاد ہسپانوی لڑکی نے زبردستی شادی کے خلاف قانونی جنگ جیت لی، والد گرفتار

لاہور کی فیملی کورٹ نے انیسہ کی شادی کو جبری شادی قرار دے کر کالعدم قرار دے دیا۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
وہ اس دن بہت خوش تھی کہ اپنے والد اور دیگر بہن بھائیوں کے ساتھ اس سرزمین پر قدم رکھ رہی تھی، جہاں اس کا بچپن گزرا تھا۔ لیکن ایک انجانا خوف اسے کھائے جا رہا تھا۔
اس نے سن رکھا تھا کہ والدین پاکستان جا کر اپنی بیٹیوں کی شادیاں کروا دیتے ہیں اور وہ اپنی مرضی کی زندگی گزارنے کے حق سے محروم کر دی جاتی ہیں۔ کچھ دن بعد ایسا ہی ہوا اور ان کے باپ نے ان کی خوشیوں کا گلہ گھونٹنے والا فیصلہ سنا دیا۔
یہ اگست 2021 کی بات ہے جب صوبہ پنجاب کے ضلع گجرات کے گاؤں ماچھیوال سے تعلق رکھنے والی انیسہ یوسف اپنے خاندان کے ہمراہ سپین سے پاکستان واپس آئیں۔
انہیں یہ بتایا گیا تھا کہ خاندان کے پاکستان واپس جانے کا مقصد ان کی بہن کی شادی ہے۔ انیسہ دراصل اپنی بہن کی شادی میں شرکت نہیں کرنا چاہتی تھی، لیکن والد نے انہیں خاندان کے ساتھ جانے کے بہانے زبردستی پاکستان لے جانے پر مجبور کر دیا کہ ’بہن کی شادی میں شرکت نہیں کرو گی تو بہت سی باتیں بنیں گی جن کا جواب دینا مشکل ہو جائے گا۔‘
انیسہ کے لیے پاکستان آنا کسی بھیانک خواب سے کم نہ تھا جب ان کے والد نے ایک کزن سے شادی پر مجبور کیا۔ جو اس سے عمر میں کافی بڑا تھا اور جسے وہ بمشکل جانتی تھی۔
کچھ ہی دنوں بعد انیسہ کو معلوم ہوا کہ اسے دھوکہ دیا گیا ہے کیونکہ ان کے والد نے پہلے ہی ان کی شادی اپنے بھتیجے سے طے کر رکھی تھی۔
انیسہ نے لاکھ منع کیا، مگر اس کی چیخیں صرف کمرے کی دیواروں سے ٹکرا کر رہ گئیں۔
والد کے تھپڑ اور مکے اس کے چہرے اور جسم پر پڑ رہے تھے، اور اسی حالت میں اس کا نکاح کر دیا گیا۔ یہ ایک ایسی شادی تھی، جس میں اس کا کوئی اختیار یا مرضی شامل نہ تھی۔

سپین رہنے والی فیملی نے پاکستان میں اپنی بیٹی کی زبردستی شادی کی۔ فائل فوٹو: فری پک

کچھ عرصے بعد انیسہ پاکستان سے واپس سپین پہنچی تو اس کا خاندان یہ سمجھ رہا تھا کہ اس نے اس شادی کو قبول کر لیا ہے۔ انیسہ کو یہ خطرہ تھا کہ اگر وہ اب بھی علی الاعلان اس شادی کو ماننے سے انکار کر دے گی تو اس کے لیے زندہ رہنا ممکن نہیں رہے گا۔
اس وجہ سے وہ خاموش رہی لیکن اپنی جنگ لڑنے کے لیے خود کو تیار کرتی رہی۔ کچھ عرصے بعد انیسہ کا رابطہ سپین میں مقیم ہما جمشید جو پاکستانی خواتین کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے والی تنظیم ACESOP کی صدر ہیں، سے ہوا۔
ہما نے فوری طور پر پولیس کو اطلاع دی اور انیسہ کو ایک محفوظ مقام پر منتقل کر دیا گیا جہاں وہ پانچ دن تک چھپی رہی۔ اس کے ساتھ وہ شخص بھی تھا جس سے وہ سچ میں محبت کرتی تھی، جو دبئی سے بارسلونا پہنچا تھا۔
انیسہ نے اس واقعے کی تمام تر روداد بارسلونا کی مقامی پولیس کو سنائی، جس نے بالآخر مئی 2023 میں انیسہ کے والد کو گرفتار کر لیا۔
والد پر انسانی سمگلنگ، غیر قانونی امیگریشن میں معاونت، اور جعلی دستاویزات تیار کرنے جیسے سنگین الزامات لگائے گئے۔
 یہ قانونی جنگ یہاں ختم نہیں ہوئی۔ ہما اور ACESOP کی کوششوں سے پاکستان میں ان کا نکاح منسوخ کرانے کے لیے عدالتی کارروائی کا آغاز بھی کیا۔
دو سال بعد لاہور کی فیملی کورٹ کی جج مصباح العین عائشہ نے انیسہ کی شادی کو جبری شادی قرار دے کر کالعدم قرار دے دیا۔

سپین کی پولیس نے والد کو انسانی سمگلنگ کے الزامات پر گرفتار کر لیا۔ فوٹو: اے ایف پی

عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ ’مدعیہ ایک بیرون ملک مقیم پاکستانی ہے، جو اس وقت ہسپانوی حکومت کی تحویل/سکیورٹی/تحفظ کے تحت سپین میں مقیم ہے اور اس کی وجہ سے اس کے حقیقی والد/خاندان سے جان کو شدید خطرات لاحق ہیں۔‘
یہ مقدمہ میاں عابد قیوم ایڈوکیٹ نامی خصوصی وکیل کے ذریعے دائر کیا گیا۔
عدالت نے کہا کہ ’اپنی درخواست میں انیسہ نے عدالت کو بتایا کہ والد نے اپنے بھتیجے اور نام نہاد شوہر کی ملی بھگت سے ایک جعلی اور بوگس نکاح نامہ تیار کیا اور بعد ازاں بوگس نکاح نامہ درج کروانے میں کامیاب ہو گیا۔‘
عدالت نے انیسہ کے شوہر ہونے کے دعویدار وسیم سجاد کو بار بار سمن جاری کیے، لیکن وہ عدالت میں حاضر نہیں ہوا۔ اس کے ساتھ ساتھ عدالت نے اخبارات میں اشتہارات بھی جاری کیے لیکن وہ خود یا اس کا کوئی وکیل عدالت میں پیش نہیں ہوا۔
عدالت نے ویڈیو لنک پر انیسہ کا بیان ریکارڈ کیا جس میں انہوں نے اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کو دہرایا۔ اس ظلم کے نتیجے میں ہسپانوی حکام کی جانب سے کیے گئے قانونی اقدامات کے ثبوت بھی پیش کیے۔
انسیہ نے اس نکاح کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ نکاح نامے پر دستخط بھی ان کے نہیں ہیں۔ انسیہ کا کہنا ہے کہ نکاح نامے پر دستخط اردو میں ہیں جبکہ وہ انگریزی میں دستخط کرتی ہیں۔
عدالت نے قرار دیا کہ ’چونکہ انیسہ کے دعوے کی تردید کرنے کے لیے بار بار نوٹسز کے باوجود دوسرا فریق حاضر نہیں ہوا اس لیے انیسہ کا مؤقف درست مانتے ہوئے قرار دیا جاتا ہے کہ اس کا نکاح کبھی ہوا ہی نہیں اور جو نکاح نامہ موجود ہے، وہ جعلی ہے۔‘

انسیہ کے مطابق نکاح نامے پر ان کے جعلی دستخط کیے گئے ہیں۔ فائل فوٹو: فری پک

اس قانونی جنگ میں انیسہ کا ساتھ دینے والی ہما جمشید کا کہنا ہے کہ ’یہ فیصلہ ایک اہم مثال ہے جس کے بعد کوئی بھی خاندان زبردستی شادی مسلط نہیں کر سکتا، چاہے وہ پاکستان میں ہو یا سپین میں۔ 2025 میں بھی اگر کوئی والدین اپنی اولاد پر شادی مسلط کرنا چاہتے ہیں تو انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ قانون اب پاکستان میں بھی خواتین کے حق میں کھڑا ہے۔‘
ہسپانوی میڈیا کے مطابق عدالت کے فیصلے کے باوجود انیسہ اور ان کے ساتھی کو محفوظ مقام پر ہی رکھا گیا ہے، تاکہ ان کا خاندان انھیں کوئی نقصان نہ پہنچا سکے جبکہ ان کے والد بھی پولیس کی تحویل میں ہیں اور ان کے خلاف مقدمات زیرِ التوا ہیں۔

 

شیئر: