جنگ بندی کے نتیجے میں اسرائیل کی جانب سے غزہ میں نقل و حرکت کی اجازت ملنے کے بعد دو ایسے جڑواں بھائی بھی آپس میں ملے ہیں جو جنگ کے دوران ایک دوسرے سے دور رہے۔
اس ملاپ سے ان فلسطینیوں کے حالات کی عکاسی بھی ہوتی ہے جو 15 ماہ تک غزہ میں ناچتی موت، جدائیوں اور تباہی سے دوچار رہے۔
ایک ہفتہ قبل کیمپوں سے گھر جانے والے جڑواں بھائیوں کے ملنے کی ایک ویڈیو پوری دنیا میں بڑے پیمانے پر دیکھی گئی، تاہم طویل عرصے تک مشکلات کا سامنا کرنے والے ابراہیم اور محمود الطوت کی ملاقات کی خوشی ادھوری سی ہو گئی تھی۔
30 برس کے جڑواں بھائیوں میں سے ایک محمود نے کچھ دن قبل روئٹرز کو بتایا تھا کہ ’میں اس کو چھوڑنا نہیں چاہتا تھا۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے میری سانس بحال ہو گئی ہو۔‘
مزید پڑھیں
شمالی غزہ کے جبالیہ علاقے سے تعلق رکھنے والے دونوں بھائی اس تنازع کے آغاز میں جدا ہو گئے تھے جو اس وقت شروع ہوا جب اکتوبر 2023 کو حماس کے عسکریت پسندوں نے اسرائیل پر حملہ کیا، جس میں تقریباً 1200 افراد ہلاک اور تقریباً 250 کو یرغمال بنایا گیا۔
فلسطینی محکمہ صحت کے حکام کے مطابق، غزہ میں اسرائیل کی جوابی کارروائی میں میں 47 ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے۔
ابتدائی طور پر اسرائیل نے شہریوں کو شمال سے نکل جانے کا حکم دیا، جہاں اس کی فوجی کارروائیاں سب سے زیادہ بڑھ گئی تھیں، لیکن ہر ایک نے ایسا نہیں کیا۔ وہ لوگ جنہوں نے جنوب کی جانب سفر کیا تھا، انہیں جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے کے ایک حصے کے طور پر گزشتہ ہفتے تک واپس آنے سے روک دیا گیا تھا۔
ابراہیم جنوب میں تھے، جبکہ محمود شمال میں اپنے خاندان کے ساتھ تھا۔
جب ایک رات دیر گئے یہ خبر آئی کہ وہ جبالیہ واپس جا سکتے ہیں، تو ابراہیم نے محمود کو فون کیا، جلدی سے کپڑے پہنے اور شمالی غزہ کی ایک مرکزی سڑک پر واقع ایک مقام پر پہنچ گئے۔
’تصور کیجیے میں چھ گھنٹے تک اپنے پیروں پر کھڑا رہا، ادھر ادھر کھڑا اسی طرح دیکھتا رہا اور سوچتا رہا کہ ابراہیم کہاں ہے؟ ابراہیم کہاں ہے؟‘
![](/sites/default/files/pictures/February/36481/2025/4570143-1766272783.jpg)
انہوں نے کہا کہ ’اس نے مجھے محمود پکارا اور میں تیزی سے بھاگا اور ہم نے ایک دوسرے کو گلے لگایا۔‘
اب وہ اور ان کے خاندان دوبارہ اکٹھے ہو گئے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنے آبائی گھر کے کھنڈرات میں وقت گزاریں گے جو نومبر 2023 میں اسرائیلی فضائی حملے میں تباہ ہو گیا تھا۔ اس حملے میں ابراہیم کی ایک بیٹی ہلاک اور دوسری زخمی ہوگئی تھیں۔
محمود نے کہا کہ ’میں اس حد تک غمگین ہو گیا تھا کہ میرا وزن کم ہو گیا۔‘
جنوب میں ابراہیم اور اس کے خاندان کے لیے گھر اور مال و اسباب کے بغیر حالات مشکل تھے، اور وہ تقریباً چار ماہ تک بغیر رابطے کے رہے۔