سعودی عرب نے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے مؤقف کو ایک مرتبہ پھر دہراتے ہوئے کہا ہے کہ مملکت کا طویل مدت سے یہی نظریہ ہے کہ فلسطینیوں کی ایک خودمختار ریاست ہونی چاہیے اور یہ ایک پختہ مؤقف ہے جس پر مذاکرات ممکن نہیں ہیں۔
عرب نیوز کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ کو امریکی ’ملکیت‘ میں لینے اور فلسطینیوں کو اپنی زمین سے بے دخل کرنے سے متعلق بیان کے کچھ دیر بعد سعودی وزارت خارجہ نے بیان جاری کیا۔
مملکت اور اس کے رہنماؤں کا طویل مدت سے یہی مؤقف رہا ہے اور وہ بارہا فلسطینیوں کے لیے انصاف کا مطالبہ کرتے آئے ہیں، ان کے بقول دہائیوں سے جاری تنازعے کے پائیدار حل کے طور پر اسرائیل کے ساتھ فلسطینی اپنی ریاست کے مستحق ہیں۔
مزید پڑھیں
سعودی رہنماؤں نے بارہا کہا ہے کہ مملکت اور اسرائیل کے درمیان رسمی تعلقات کا انحصار 1967 کی سرحدوں کے مطابق ایک قابل عمل فلسطینی ریاست کے قیام پر ہے۔
وزارت خارجہ کے بیان میں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے 18 ستمبر 2024 کو شوریٰ کونسل سے خطاب کا حوالہ دیا گیا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ سعودی عرب خومختار فلسطینی ریاست جس کا دارالحکومت مشرقی یروشلم ہو، کے قیام کے لیے انتھک کوششیں جاری رکھے گا اور اس کے بغیر اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر نہیں لائیں گے۔
سعودی ولی عہد نے 11 نومبر 2024 کو ریاض میں ہونے والی عرب اسلامی سربراہی کانفرنس میں بھی انہی جذبات کا اظہار کیا تھا اور فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے کوششیں جاری رکھنے پر زور دیتے ہوئے فلسطینی علاقوں پر اسرائیلی قبضہ ختم کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے دیگر ممالک پر بھی زور دیا تھا کہ وہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کریں۔ انہوں نے فلسطینیوں کے حقوق کی حمایت کے لیے عالمی کمیونٹی کو متحرک کرنے کی اہمیت کو اجاگر کیا تھا، جن (حقوق) کا اظہار فلسطین کو عالمی ادارے کی مکمل رکنیت کا اہل قرار دیتے ہوئے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قراردادوں میں بھی کیا گیا ہے۔
وزارت خارجہ نے بیان میں کہا ہے کہ ’ فلسطینی عوام کے جائز حقوق کی کسی بھی خلاف ورزی، چاہے وہ اسرائیلی آبادکاری کی پالیسیوں کے ذریعے ہو، فلسطینی علاقوں کے الحاق کے ذریعے، یا فلسطینی عوام کو ان کی سرزمین سے بے گھر کرنے کی کوششوں کے ذریعے ہو، مملکت سعودی عرب اس کو واضح طور پر مسترد کرتا ہے جس کا اعلان پہلے بھی کر چکا ہے۔‘
صدر ٹرمپ نے بدھ کو وائٹ ہاؤس میں اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ فلسطینیوں کے لیے غزہ سے باہر رہنا بہتر ہوگا، جو 15 ماہ جاری رہنے والے وحشیانہ اسرائیلی حملوں کے دوران ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے۔
صدر ٹرمپ کا کہنا تھا ’میرا نہیں خیال کے لوگوں کو واپس جانا چاہیے۔ فی الحال آپ غزہ میں نہیں رہ سکتے۔ میرے خیال میں ہمیں کسی اور مقام کی ضرورت ہے۔ میرے خیال میں ایسی جگہ ہونی چاہیے جہاں لوگ خوش رہیں۔‘
صدر ٹرمپ پہلے بھی یہ اصرار کر چکے ہیں کہ مصر اور اردن کو غزہ کے اُن لوگوں کو اپنے ملک میں رکھنا پڑے گا جنہیں وہ (ٹرمپ) بے گھر کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ تاہم دونوں ممالک اس نظریے کو یکسر مسترد کر چکے ہیں۔
پریس کانفرنس کے دوران صدر ٹرمپ نے غزہ کی تعمیر نو میں مدد کے لیے امریکی افواج تعینات کرنے کے امکان کو مسترد نہیں کیا اور علاقے کو امریکی ملکیت میں لینے کا کہا ہے۔ معتدل آب و ہوا اور بحیرہ روم کے ساحل پر واقع غزہ کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا کہ جنگ زدہ علاقہ ’مشرق وسطی کا رویرا‘ بن سکتا ہے۔
سعودی عرب نے مزید کہا ہے کہ یہ عالمی برادری کا فرض ہے کہ شدید انسانی مصائب کا شکار فلسطینی عوام کی تکلیف کو دور کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں اور جو اپنی سرزمین پر ہی رہیں گے
بیان میں کہا گیا ہے کہ ’بین الاقوامی قانونی قراردادوں کے تحت فلسطینی عوام کو ان کے جائز حقوق دیے بغیر دیرپا اور منصفانہ امن حاصل نہیں کیا جا سکتا، اور اس کی وضاحت سابقہ اور موجودہ امریکی انتظامیہ کو کر چکے ہیں۔‘