پنجاب صفائی مہم، ’پیٹ خالی اور حکومت پر بازار خوبصورت بنانے کا شوق سوار‘
پنجاب صفائی مہم، ’پیٹ خالی اور حکومت پر بازار خوبصورت بنانے کا شوق سوار‘
بدھ 12 فروری 2025 5:56
رائے شاہنواز -اردو نیوز، لاہور
پنجاب حکومت کی جانب سے جاری صفائی مہم پر تاجروں کی اکثریت خوش دکھائی دیتی ہے (فائل فوٹو: مریم نواز ایکس اکاؤنٹ)
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے بڑے شہروں میں ان دنوں ایک بدلاؤ سا دکھائی دیتا ہے۔ پہلے سے بہتر صفائی اور کُھلے بازار دیکھنے والوں کو ایک مختلف احساس دلاتے ہیں۔
صوبائی دارالحکومت لاہور کے علاقے فیصل ٹاؤن میں کوٹھہ پنڈ کی گنجان آبادی کا بازار بھی آج کل کچھ ایسا ہی دکھائی دے رہا ہے۔
مرکزی بازار کے ایک نُکڑ پر دہائیوں سے ریڑھی لگا کر بیٹھنے والا ’بِلا‘ اب نظر نہیں آرہا۔ جب اس حوالے سے اردگرد تلاش کیا گیا تو پتا چلا اُس کا سامان ٹاؤن کمیٹی والے اُٹھا کر لے گئے ہیں۔
کچھ دیر کے بعد بِلے سے ملاقات ہو گئی تو اُن کا کہنا تھا کہ ’میں 25 سال سے یہاں جلیبیاں لگا رہا ہوں، اور یہ جو فلیٹس ہیں یہ 1965 میں بنے تھے اور اب تو یہ بھی ختم ہو گئے ہیں۔‘
انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’میرے بیٹھنے سے اِن کی خوب صورتی میں کیا فرق پڑ رہا تھا؟ اب میرا سامان اُٹھا کر لے گئے ہیں۔ اتنی سختی تو میں نے پہلے کبھی بھی نہیں دیکھی۔‘
’شہباز شریف نے 2011 میں ایسے ہی شروع کیا تھا لیکن تب بھی مجھے ٹاؤن والوں نے کچھ نہیں کہا تھا۔ میرے پاس دکان کے پیسے نہیں ہیں، ریڑھی لگا کر بچے ہی پال سکتا ہوں اور اس میں بچتا ہی کیا ہے۔‘
لاہور کا مشہور زمانہ انار کلی بازار بھی آج کل بدلا بدلا دکھائی دے رہا ہے۔ وہ لوگ جنہوں نے شہر کا پرانا انار کلی بازار دیکھ رکھا ہے شاید وہ اب اسے پہچان ہی نہ پائیں۔
ہر دکان کے سامنے فُٹ پاتھ تک خالی ہے اور یہاں دکانوں کے باہر سینکڑوں ٹھیلوں پر کپڑے بیچنے والے غائب ہیں۔ ایک ٹھیلے والے باؤ اختر کی کہانی بھی بِلے کی کہانی جیسی ہی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’میں تو یہاں ٹھیلہ لگانے کا پیسہ بھی دیتا تھا۔ ایک بندے کو نہیں بلکہ کئی لوگوں کو پیسے دے رہا تھا۔ اب تو انہوں نے پہچاننے سے ہی انکار کر دیا ہے۔‘
باؤ اختر کا کہنا تھا کہ ’میں دُکان کرائے پر نہیں لے سکتا۔ اگر لے سکتا ہوتا تو میں ریڑھی ہی کیوں لگاتا؟ کیا کوئی شوق سے ٹھیلے بھی لگاتا ہے؟ ہم تو مزدوری کرتے ہیں۔‘
پنجاب کے شہروں میں تجاوزات کے خلاف مہم سے بازار اور سٹرکیں کُشادہ ہو گئی ہیں (فائل فوٹو: ڈی سی گوجرانوالہ)
ان کا کہنا تھا کہ ’کچھ بازار ہیں جیسے شاہ عالمی یا انار کلی، ان کو تو کبھی بھی کسی نے نہیں چھیڑا، یہاں کا کلچر ہی یہی ہے اب تو ہر چیز اُکھاڑ کے پھینک دی گئی ہے۔‘
’خوب صورتی وہاں آتی ہے جہاں بھوک ختم ہوتی ہے۔ ہمارے تو پیٹ خالی ہیں اور ہماری حکومت کو بازار خوب صورت بنانے کا شوق سوار ہے۔‘
بِلے اور باؤ اختر کی کہانیاں تصویر کا ایک رُخ بتا رہی ہیں۔ پنجاب میں جاری اس بڑی صفائی مہم پر کافی لوگ خوش بھی دکھائی دیتے ہیں۔ انار کلی بازار کے تاجروں کی تنظیم کے صدر اشرف بھٹی کہتے ہیں کہ ’حکومت نے تو ہمارے اوپر احسان کیا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’یہاں ریڑھیوں کی بھرمار تھی اور گزرنے کی جگہ نہیں تھی۔ لوگوں نے اپنی دکان کے سامنے چار چار ریڑھی والوں کو کرائے پر جگہ دے رکھی تھی۔‘
’میں یہاں کے تاجروں میں سب سے پرانا ہوں۔ تجاوزات کے خلاف پہلی مہم پتا ہے کب چلی تھی؟ 1952 میں، تب میں بچہ تھا لیکن مجھے وہ مہم یاد ہے۔ اس کے بعد حکومت نے اعظم کلاتھ مارکیٹ بنائی اور جنہیں انار کلی سے بے دخل کیا گیا تھا انہیں وہاں جگہ دی گئی۔‘
ریڑھی بانوں کا یہ کہنا ہے کہ تجاوزات کے خلاف آپریشن کے نام پر ان سے روزگار چھینا جا رہا ہے (فائل فوٹو: آر ڈی اے)
اشرف بھٹی اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ’پھر 1965 میں شاہ عالمی کے سامنے باغ ختم کر کے مارکیٹیں بنائی گئیں۔ شہر کی خوب صورتی تباہ کر کے گنجان آباد علاقوں میں بھی مارکیٹیں بن گئیں اور آج وہ لوگ کروڑ پتی ہیں لیکن مسئلہ پھر بھی جُوں کا تُوں ہے۔‘
’مجھے تو لگتا ہے کہ ہمارے کلچر میں کوئی مسئلہ ہے۔ آج حکومت پھر نئی مارکیٹیں بنائے، اس حکومت کے جانے کے بعد انار کلی پھر ویسی ہی دکھائی دے گی جیسے پہلی تھی۔‘
لاہور کے اے سی سٹی بابر علی کہتے ہیں کہ ’ایسا نہیں ہے کہ لوگوں کا سامان بغیر بتائے ضبط کیا جا رہا ہے، کئی بار وارننگ جاری کر کے انہیں وقت دیا گیا اور حکومت کی رِٹ نہ ماننے والوں کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے۔
اُدھر پنجاب بھر میں ہزاروں ریڑھی بانوں کے خلاف تجاوزات کی مہم میں ہونے والے آپریشن پر مسلم لیگ ن کے صدر نواز شریف نے وزیراعلٰی پنجاب مریم نواز کو ہدایت کی ہے کہ وہ ان افراد کو متبادل جگہیں فراہم کریں۔ اس بات کا اعلان خود وزیراعلٰی آفس سے جاری ایک بیان میں کیا گیا ہے۔