حماس نے کہا ہے کہ وہ طے شدہ منصوبہ کے مطابق اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرے گی۔
بین الاقوامی خبر رساں اداروں کے مطابق حماس کے اس بیان سے بظاہر ایک بڑا تنازع حل ہوگا جس سے غزہ کی پٹی میں جنگ بندی کو خطرہ لاحق ہو گیا تھا۔
جمعرات کو جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ سنیچر کو تین اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کر دیا جائے گا۔ حماس کے اعلان کے بعد اسرائیل کی جانب سے فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے۔
مزید پڑھیں
اس سے غزہ کی پٹی میں جنگ بندی کا عارضی معاہدہ جاری رہے گا، تاہم اس کا مستقبل مشکوک ہے۔
حماس نے اسرائیلی یرغمالیوں کی اگلی رہائی میں تاخیر کرنے کی دھمکی دی تھی، اور کہا تھا کہ اسرائیل کی جانب سے جنگ بندی کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔
اسرائیل نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت سے یہ دھمکی دی تھی کہ اگر یرغمالیوں کو رہا نہ کیا گیا تو وہ غزہ میں کارروائی دوبارہ شروع کر دے گا۔
حماس کے ترجمان عبداللطیف القنوعہ نے کہا کہ ’ہم غزہ کی پٹی میں جنگ بندی کے معاہدے کے خاتمے میں دلچسپی نہیں رکھتے، اور ہم اس کے نفاذ اور اس بات کو یقینی بنانے کے خواہشمند ہیں کہ قابض (اسرائیل) اس پر پوری طرح عمل کرے۔‘
حماس کے ترجمان نے کہا کہ ’ٹرمپ اور نیتن یاہو کی طرف سے استعمال کی جانے والی دھمکیوں اور دھونس کی زبان جنگ بندی کے معاہدے کے نفاذ کے لیے مددگار نہیں۔‘
حماس کے غزہ کے سربراہ خلیل الحیا کی قیادت میں ایک وفد نے بدھ کے روز مصری سکیورٹی حکام سے ملاقات کی، تاکہ تعطل کو توڑنے کی کوشش کی جا سکے۔
ایک فلسطینی عہدیدار جو بات چیت کے قریب ہیں، نے روئٹرز کو بتایا کہ مصر اور قطر، لڑائی دوبارہ شروع ہونے سے روکنے کے لیے حل تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ایک بیان میں حماس نے کہا کہ ثالث جنگ بندی کے معاہدے پر مکمل عمل درآمد کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں، اسرائیل انسانی ہمدردی کے پروٹوکول کی پابندی کرنی چاہیے اور سنیچر کو فلسطینی قیدیوں کے بدلے اسرائیلی یرغمالیوں کے تبادلے کا عمل دوبارہ شروع کیا جائے۔
یرغمالیوں کی واپسی نہ ہونے کی صورت میں اسرائیل نے فوجی ریزور اہلکاروں کو طلب کیا ہے تاکہ غزہ میں دوبارہ ممکنہ جنگ کی تیاری کی جا سکے۔