غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے کو اگلے مرحلے میں لے جانے کے لیے اسرائیل پر دباؤ بڑھ رہا ہے تو دوسری جانب امریکی صدر نے ’غزہ کا کنٹرول سنبھالنے کا عزم‘ ایک بار پھر دُہرایا ہے۔
امریکی خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق یرغمالیوں کے حوالے سے نئی تفصیلات سامنے آنے کے بعد وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو پر دباؤ بڑھا ہے کہ وہ جنگ بندی کے معاہدے کو اگلے مرحلے میں بڑھائیں، جس پر بات چیت کے لیے وفد بھی قطر بھجوایا گیا ہے۔
جنگ بندی کے معاہدے کے دوسرے مرحلے پر بات چیت کا مقصد مزید یرغمالیوں کی رہائی اور غزہ سے مکمل طور پر اسرائیل کا انخلا ہے۔
مزید پڑھیں
-
فلسطینیوں کا حق قائم رہے گا، اسے کوئی چھین نہیں سکتا: سعودی عربNode ID: 885621
-
مصر 27 فروری کو فلسطین پر ہنگامی عرب کانفرنس کی میزبانی کرے گاNode ID: 885640
یہ سلسلہ تین فروری کو شروع ہونا تھا تاہم اسرائیل اور حماس دونوں کی جانب سے بہت کم پیشرفت ہوئی اور معاملہ تاخیر کا شکار ہوا تھا۔
اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے ثالثی میں بنیادی کردار کرنے والے ملک قطر اپنا وفد بھجوایا، تاہم اس میں نسبتاً نچلی سطح کے عہدیدار شامل ہیں، جس کے بعد یہ افواہ پھیلنا شروع ہو گئی تھی کہ بات چیت سے کوئی بڑی پیشرفت نہیں ہو پائے گی۔
نیتن یاہو جو صدر ٹرمپ سے ملاقات کے بعد امریکہ سے اسرائیل واپس آ چکے ہیں، کے بارے میں توقع ظاہر کی جا رہی ہے کہ وہ کل سکیورٹی کابینہ کے وزرا کا اجلاس طلب کریں گے۔
دوسری جانب اتوار کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ’غزہ کی پٹی کا کنٹرول سنبھالنے کا عزم‘ ایک بار پھر دُہرایا۔
انہوں نے سپر باؤل کے سفر کے دوران ایئرفورس ون میں موجود صحافیوں کو بتایا کہ ’میں غزہ کو خریدنے اور ملکیت لینے کے لیے پُرعزم ہوں، جہاں تک اس کی تعمیرِ نو کی بات ہے تو اس کے لیے ہم اس کے حصے مشرق وسطیٰ کی دیگر ریاستوں کو دے سکتے ہیں لیکن اس کی ملکیت ہمارے پاس ہو گی۔‘
![](/sites/default/files/pictures/February/42961/2025/trump_afp.webp)
انہوں نے واضح الفاظ میں کہا کہ ’ہم اس کی ملکیت حاصل کرنے اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے پُرعزم ہیں کہ حماس وہاں واپس نہ آئے۔‘
امریکی صدر نے یہ بھی کہا کہ ’غزہ واپسی کے قابل نہیں ہے، سب کچھ مسمار ہو چکا ہے، جو بچا ہے وہ مسمار کر دیا جائے گا۔‘
ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ عرب ممالک ان سے بات چیت کے بعد فلسطینیوں کو اپنے پاس رکھنے پر راضی ہو جائیں گے۔
انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ اگر غزہ کے لوگوں کے پاس کوئی اور آپشن ہو تو وہ علاقہ چھوڑ دیں گے۔
’وہ غزہ نہیں جانا چاہتے، ان کے جانے کی وجہ یہ ہے کہ ان کے پاس کوئی متبادل نہیں ہے، اگر ہم ان کو کسی محفوظ مقام پر گھر دے سکیں تو وہ لوٹنا نہیں چاہیں گے۔‘
انہوں نے رہا کیے جانے والے یرغمالیوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ ان کی حالت کو دیکھتے ہوئے معاہدے کے حوالے سے اپنا ضبط کھونے لگے ہیں۔
’میں نے آج واپس آنے والے یرغمالیوں کو دیکھا، ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ ہولوکاسٹ سے بچ کر آئے ہوں۔ وہ بہت کمزور دکھائی دے رہے تھے، مجھے نہیں معلوم کہ ہم اس کو کتنے عرصے تک برداشت کر سکیں گے۔‘
اسی طرح اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے بھی غزہ کے لوگوں کو دوسرے مقام پر آباد کرنے کی تجویز پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اسے ’انقلابی اور تخلیقی خیال‘ قرار دیا ہے۔
![](/sites/default/files/pictures/February/42961/2025/reuters_0.webp)
تاہم اس کو حماس، فلسطینیوں اور دنیا کے بیشتر ممالک نے مسترد کیا ہے۔
مصر کا کہنا ہے کہ وہ 27 فروری کو ایک ہنگامی عرب اجلاس کی میزبانی کرے گا جس میں ’نئی اور خطرناک پیشرفتوں‘ کا جائزہ لیا جائے گا۔
ٹرمپ کی تجویز میں اخلاقی اور قانونی طور پر رکاوٹوں کے علاوہ عملدرآمد کے حوالے سے بھی رکاوٹیں موجود ہیں۔ ممکن ہے کہ یہ حماس پر دباؤ ڈالنے کا حربہ ہو یا پھر اس کا مقصد اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان معاملات کو نارمل کرنے کے لیے بات چیت کا آغاز ہو۔
سعوری عرب نے نیتن یاہو کے اس حالیہ تبصرے کی مذمت کی ہے کہ فلسطینی وہاں اپنی ریاست بنا سکتے ہیں۔
سعودی عرب کا کہنا ہے کہ ’اس کا مقصد فلسطین پر قبضے، فلسطینیوں کے خلاف کیے گئے جنگی جرائم سے توجہ ہٹانا ہے جس میں ان کی نسل کشی بھی شامل ہے۔‘
قطر نے نیتن یاہو کے تبصرے کو ’اشتعال انگیز‘ اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔