Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نو فلائی لسٹ سے اپنا نام کیسے نکلوایا جا سکتا ہے؟

ای سی ایل میں تاجروں، سوشل میڈیا ایکٹویسٹ اور یو ٹیوبرز کے علاوہ دیگر کے نام شامل ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی
پاکستان میں گزشتہ کچھ سالوں سے سیاسی عدم استحکام کے باعث متعدد عدالتوں میں ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں نام ڈالے جانے کے خلاف کیسز زیر سماعت ہیں۔
پہلے پہل تو معاملہ سیاسی تھا۔ یعنی سیاستدانوں خاص طور پر اپوزیشن سے تعلق رکھنے والوں کو حکومت ای سی ایل میں ڈالتی تھی۔ تاہم اب 9 مئی 2023 کے بعد مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کے نام بھی ’نو فلائی لسٹ‘ میں ڈالے گئے ہیں۔
ای سی ایل میں تاجروں، سوشل میڈیا ایکٹویسٹ، یو ٹیوبرز اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کے نام بھی ڈالے گئے ہیں۔ تاہم ان کا بھی پس منظر کسی نہ کسی طرح سے سیاسی ہی ہے۔
پاکستان کے آئین میں تمام شہریوں کو نقل و حرکت کی مکمل آزادی حاصل ہے تاہم دی ایگزٹ فرام  پاکستان (کنٹرول) آرڈیننس 1981 کے تحت ملک کی وزارت داخلہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ایما پر کسی کا بھی نام ای سی ایل میں ڈال سکتی ہے۔
تاہم اس کے لیے بھی ضوابط طے ہیں کہ اس بات کا ٹھوس ثبوت دینا ہو گا کہ ایسے شخص کا نام ای سی ایل میں کیوں ڈالا جا رہا ہے۔
اس آرڈیننس کے تحت بنائے گئے رولز کے مطابق ایسے افراد جو کرپشن میں ملوث ہوں اور ریاست پاکستان کو نقصان پہنچانے کے ذمہ دار ہوں، ایسے افراد جو اپنے عہدے کا غلط استعمال کر چکے ہوں، دہشت گردی میں ملوث ہوں، مالیاتی فراڈ، ٹیکس چوری، ادارہ جاتی فراڈ، دس کروڑ روپے سے زائد قرض کے ڈیفالٹر، کسی بھی عدالت کے حکم پر، منشیات سمگلنگ اور سزا یافتہ افراد کے نام ای سی ایل میں ڈالے جا سکتے ہیں۔
ای سی ایل سے نام نکلوائیں کیسے؟

9 مئی کے بعد مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والوں کے نام ’نو فلائی لسٹ‘ میں ڈالے گئے۔ فوٹو: اے ایف پی

سب سے پہلے تو یہ بات پتا ہونا ضروری ہے کہ آپ کو اس بات کا علم ہو کہ کہیں آپ کا نام ای سی ایل میں شامل تو نہیں ہے؟ اس بات کو جانچنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ اپنے قریبی ترین پاسپورٹ آفس میں جا کر اپنے پاسپورٹ کے رینیول کی درخواست دیں۔
امیگریشن قوانین پر گہری نظر رکھنے والے وکیل ایم مفتی کہتے ہیں کہ پاکستان کے قوانین کے مطابق جیسے ہی نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالا جاتا ہے تو اسی وقت پاسپورٹ بھی بلاک ہو جاتا ہے۔
’ابھی ہمارے پاس کچھ ایسے کیس آئے ہیں کہ جن میں لوگوں کو پتا ہی نہیں تھا کہ ان کے نام ای سی ایل میں ہیں۔ وہ تو جب عمرے پر جانے کے لیے پاسپورٹ کے رینیول کی درخواست دی تو پتا چلا کہ پاسپورٹ تو رینیو ہی نہیں ہوسکتا۔‘
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ’سب سے سادہ طریقہ یہی  ہے کہ اپنے پاسپورٹ کی رینیول کی درخواست دیں تو سسٹم سے آپ کو پتا چل جائے گا کہ پاسپورٹ بلاک ہے یا نہیں، اس کے بعد متعلقہ ہائی کورٹ سے رجوع کریں۔ کسی بھی صوبے کی ہائی کورٹ کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ وزارت داخلہ کے حکم نامے کو سپروائز کر سکتی ہے۔‘
پیر کے روز پنجاب کے اپوزیشن لیڈر ملک احمد بھچر کو اس وقت پتا لگا کہ ان کا نام ای سی ایل میں ہے جب وہ عمرے کے لیے اپنے پاسپورٹ کو رینیو کروانے کے لیے پاسپورٹ آفس پہنچے جہاں انہیں بتایا گیا کہ وہ یہ سہولت سردست حاصل نہیں کر سکتے۔

 

شیئر: