Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بیرون ملک سے آنے والے پاکستانیوں کی ایئرپورٹ پر ’سخت چیکنگ‘ کیوں؟

حکام کا کہنا تھا کہ حالیہ عرصے میں ایئرپورٹ پر شہریوں کے لیے ایس او پیز کو مزید سخت بنا دیا گیا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)
کامران مختار (فرضی نام) 5 سال ترکیہ میں قیام کرنے کے بعد گزشتہ ہفتے استنبول (ترکیہ) سے اسلام آباد کے لیے روانہ ہوئے اور تقریباً پانچ  گھنٹے کا فضائی سفر طے کر کے اسلام آباد ایئرپورٹ پر اُترے۔
کامران مختار کے لیے بیرون ممالک سے آنے والے شہریوں کی معمول کی کلیرئنس کا عمل اُس وقت طول پکڑ گیا جب ایئرپورٹ پر موجود امیگریشن حکام نے اُنہیں بتایا کہ اُن کا تو پاکستان سے بیرون ملک جانے کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے۔
یہ بتانے کے بعد اُنہیں ایک الگ کمرے میں لے جایا گیا اور پوچھ گچھ شروع کر دی گئی۔
کامران مختار نے امیگریشن حکام کو بتایا کہ وہ پانچ برس قبل پشاور سے بیرون ملک گئے تھے لیکن  اُن کا پاکستان سے باہر جانے کا ریکارڈ نہ ہونے کی وجہ سے امیگریشن حکام کو شُبہ ہوا کہ وہ غیرقانونی طریقے سے بیرونِ ملک گئے ہیں۔
کامران مختار نے اُردو نیوز سے گفتگو میں بتایا کہ ’وہ پانچ گھنٹے ایئرپورٹ پر رکنے اور امیگریشن حکام کو دستاویزی ثبوت دکھانے کے بعد گھر جانے میں کامیاب ہو سکے۔‘

غیرقانونی طریقے سے پاکستان سے باہر جانے والوں کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہوتا (فائل فوٹو: جناح انٹرنیشنل ائیرپورٹ، فیس بک)

پاکستان سے بیرون ممالک غیرقانونی طریقے سے جانے اور پھر واپس پاکستان آنے والے شہریوں کی نشاندہی کرنے کے لیے ایف آئی اے اور امیگریشن حکام بیرون ممالک سے آنے والے اُن شہریوں جن کا پاکستان سے بیرون ملک جانے کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے، کو ایئر پورٹ پر سخت جانچ پڑتال کے عمل سے گزار رہے ہیں۔
اس بارے میں امیگریشن اینڈ پاسپورٹ حکام نے اُردو نیوز کو بتایا ہے کہ عمومی طور پر جو شہری پاکستان سے کسی غیرقانونی راستے سے بیرون ملک جاتے ہیں، اُن کا پاکستان سے باہر جانے کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہوتا۔
’اگر کوئی شہری ایئرپورٹ پر اُترے اور اُس کے سفری ریکارڈ میں پاکستان سے باہر جانے کا ذکر نہ ہو تو بظاہر یہی لگتا ہے کہ وہ ڈنکی لگا کر یا کسی دوسرے غیرقانونی طریقے سے بیرون ملک گیا تھا۔‘
حکام کا کہنا تھا کہ حالیہ عرصے میں ایئرپورٹ پر ایسے شہریوں کے لیے ایس او پیز کو مزید سخت بنا دیا گیا ہے۔
’کوئی شہری اگر اپنی سفری دستاویزات اور ریکارڈ میں یہ ثابت نہ کر سکے کہ وہ قانونی راستے سے ہی پاکستان سے باہر گیا ہے تو اُس کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جاتی ہے۔‘

کئی پاکستانی شہری بیرون ملک جا کر کسی نوکری کا پرمٹ حاصل کر لیتے ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)

اُنہوں نے اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’گزشتہ دو ماہ کے دوران ایسے بیسیوں شہریوں کو حراست میں لے کر اُن کے خلاف قانونی کارروائی شروع کی گئی ہے جن کا پاکستان سے باہر جانے کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں تھا۔‘
اُردو نیوز نے امیگریشن کے ماہرین سے بھی گفتگو کر کے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ غیرقانونی طور پر پاکستان سے باہر جانے والے شہری قانونی طور پر پاکستان واپسی کیسے ممکن بناتے ہیں؟
تارکین وطن کے حوالے سے کام کرنے والے وکیل اور امیگریشن کے ماہر یاسر شمس نے بتایا کہ ’اگر کوئی پاکستانی شہری غیرقانونی طریقے سے بیرون ملک جائے، اس کے باوجود وہ خود کو بیرون ملک قانونی طور پر رہنے کے قابل بنا سکتا ہے۔‘
اُنہوں نے واضح کیا کہ ’ایسے شہری بیرون ملک جا کر کسی نوکری کا پرمٹ حاصل کر لیتے ہیں یا وہ کسی مقامی لڑکی سے شادی کر لیتے ہیں۔ ان دو طریقوں سے وہ خود کو قانونی طور پر کسی دوسرے ملک کا رہائشی بنا لیتے ہیں، البتہ اگر ایسے شہری باہر جا کر سیاسی پناہ لینے کا فیصلہ کرتے ہیں تو اس صورت میں اُن کی پاکستان واپسی ممکن نہیں ہوتی۔‘

جو شہری بیرون ملک سیاسی پناہ لینے کا فیصلہ کرتے ہیں اُن کی پاکستان واپسی ممکن نہیں ہوتی (فائل فوٹو: اے ایف پی)

ڈپلومیٹک اینڈ امیگریشن لاء ایکسپرٹ میجر (ر) بیرسٹر محمد ساجد مجید غیرقانونی طریقے سے باہر جانے والے شہریوں کو پاکستان واپسی پر سخت جانچ پڑتال سے گزارنے کے عمل کو خوش آئند قرار دے رہے ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ ’اگر شہری غیرقانونی طور بیرون ملک جا کر واپس پاکستان آنا بھی ممکن بنا لیں تو وہ پھر دوسرے شہریوں کو بھی اسی راستے کے ذریعے بیرون ملک جانے کی ترغیب دیں گے۔ اس لیے حکومت کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے  کہ اگر کوئی غیرقانونی طریقے سے باہر چلا بھی جائے تو کم از کم واپسی پر اُسے سکیورٹی پروٹوکول سے ضرور گزرنا پڑے۔‘

 

شیئر: