Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ٹرمپ کے شکریے کا مطلب کیا ہوگا؟ اجمل جامی کا کالم

امریکی صدر نے بدھ کو اپنے خطاب میں پاکستان کا بالخصوص شکریہ ادا کیا (فوٹو: روئٹرز)
2016 میں کالعدم داعش خراسان میں شمولیت اختیار کی۔ کابل اور افغانستان بھر میں21  سے زائد دہشت گردی کی وارداتوں میں ملوث اس شخص کو  ماہرین ’مسٹری  مائینڈ ماسٹر‘ کہنے پر مجبور ہوئے اوریہ داعش خراسان کے امیر کا انتہائی معتمد ٹھہرا۔
ستمبر 2019 میں افغان نیشنل ڈارئیکٹریٹ آف سکیورٹی  یعنی این ڈی ایس اسے گرفتار کرنے میں کامیاب ہوئی۔ اگست 2021 کے وسط میں یہ جیل سے بھاگنے میں بھی کامیاب ہوا۔ اس نے انکشاف کیا کہ ایک اہم واردات کے لیے یہ جیل کے اندر سے ہی پلاننگ کرتا رہا اور اسی دوران یہ خود کش حملہ آوروں سے بھی رابطے میں رہا۔ 
چھبیس اگست 2021 میں حامد کرزئی ائیر پورٹ پر خود کش حملے ہوئے جس سے 183 افراد مارے گئے۔ انہی میں تیرہ امریکی فوجی بھی شامل تھے۔ داعش خراسان  کے ضیا الدین العمروف ملا محمد نے نہ صرف اس حملے کی ذمہ داری قبول کی بلکہ اس کی آڑ میں اپنے مذموم مقاصد اور اہداف کا بھی برملا پرچار کیا۔
پاک افغان سکیورٹی معاملات پر گہری نظر رکھنے والے صحافی افتخار فردوس کی تحقیقات کے مطابق ضیا الدین اور یہ مسٹری مائینڈ ماسٹر دونوں جیل میں اکٹھے تھے اور وہیں اس پلاننگ کا حصہ رہے۔ ضیا الدین 2023 میں ایک آپریشن کے دوران مارا گیا مگر یہ شخص مسلسل نظروں سے اوجھل رہا۔
بالآخر اسے چند ہفتے پہلے امریکی سی آئی اے کی فراہم کردہ معلومات کی بنیاد پر کارروائی کرتے ہوئے پاکستانی اداروں نے پاک افغان سرحد کے قریب سے گرفتار کر لیا
اس دہشتگرد کو کمانڈر محمد شریف اللہ المعروف جعفر کہا جاتا ہے جو کرزئی ائیرپورٹ پر ایبی گیٹ حملے کا ماسٹر مائنڈ سمجھا جاتا ہے۔
اسی دہشتگرد کی گرفتاری پر بدھ  کو کانگریس سے خطاب کے دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان کا بالخصوص شکریہ ادا کیا۔
یہی نہیں بلکہ پھر اسی دن شام کو اطلاع ملی کہ مائیکل والٹز (امریکی نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر) نے پاکستانی وزیر خارجہ اسحاق ڈار کو فون  کیا  اور انسدادِ دہشتگردی کی کوششوں میں پاکستانی کردار کی تعریف کرتے ہوئے شکریہ ادا کیا۔

پاکستانی اداروں نے شریف اللہ کو پاک افغان سرحد کے قریب سے  گرفتار کیا  (فوٹو: ایف بی آئی ڈائریکٹر کاش پٹیل)

فاکس نیوز کے پروگرام میں امریکی سیکریٹری دفاع بھی پاکستان کے مشکور دکھائی دیے۔ بس پھر کیا تھا؟ ہماری سرکار امریکی تعریف پر شاداں تھی، تحریک انصاف کو آڑے ہاتھوں لے رہی تھی، ٹی وی شوز میں حکومتی ترجمان تحریک انصاف کے رہنماؤں کو طعنے دیتے رہے۔ برملا کہتے رہے کہ آپ تو لابنگ کر رہے تھے، ٹویٹس کروا رہے تھے، شکریہ ٹرمپ نے ہمارا کیا۔ وغیرہ وغیرہ۔
فی الحال تو واقعی اس سٹریٹیجکل تعاون کے نتیجے میں اہم گرفتاری اور قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کے تحت شریف اللہ کی امریکہ حوالگی اور پھراس پر ملی داد کے نتیجے میں حکومت نے سُکھ کا سانس لیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ سرکار کو گویا اس تعریف کے بعد سٹرائیڈ کا انجکشن لگا ہو۔ 
لیکن کیا یہ شکریہ کافی ہے؟ کیا اس سے پی ٹی آئی چُپ سادھ لے گی؟
یہ سمجھنے کے لیے یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ ٹرمپ سرکار ان دنوں کیسے آپریٹ کر رہی ہے اور ان کے اہداف کیا ہیں، کیسے اور کیونکر انہوں نے ایک نیا ورلڈ آرڈر ترتیب دینا شروع کر دیا ہے۔
کبھی زیلنسکی کی سبکی، کبھی ٹروڈو کے نام بولیاں، کہیں یورپ کیساتھ کھینچا تانی کے نام پر طعنے تو کہیں گرین لینڈ اور میکسیکو کے لیے ٹینشن کا ساماں۔ اور تو اور ٹرمپ سرکار بگرام ائیر بیس اور طالبان سے امریکی اسلحے کی واپسی کی بھی متمنی دکھائی دیتی ہے۔
ٹرمپ بظاہر جذباتی مگر درحقیقت ٹھنڈی کر کے کھانے والے بزنس مین سیاستدان ہیں۔ کابل ائیر پورٹ کے حملوں پر جب انہیں بریفنگ دی گئی تو موصوف 13امریکی فوجیوں کی ہلاکت کے مدعے پر اٹک گئے۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ ٹرمپ شروع دن سے اس حملے اور اس کے ماسٹر مائنڈز تک پہنچنے کے لیے بے تاب تھا۔ خفیہ اداروں کو حملے کے ماسٹر مائنڈز تک پہنچنے کا ٹاسک دیا۔
ان 13 فوجیوں کے اہل خانہ سے رابطے میں رہا اور اس کا اظہار کانگریس میں کی گئی تقریر میں بھی کیا کہ وہ ان متاثرہ خاندانوں کو ذاتی طور پر جانتا ہے۔ سوفٹ سوارڈ آف امریکن جسٹس سے اس دہشتگرد کو گزارنے کا عزم کیا اور ایوان سے بھر پور داد سمیٹی۔

تحریک انصاف سر توڑ کوشش کر رہی تھی کہ امریکی وزیر خارجہ یا صدر ان کے حق میں آواز اُٹھائیں (فوٹو: اے ایف پی)

یہ ایک واقعہ ٹرمپ کی نفسیات اور سیاست کو سمجھنے کے لیے کئی ایک حوالوں سے خاطر خواہ انڈرسٹنڈینگ فراہم کرتا ہے۔ عوام سے کیے گئے وعدوں اور ’امریکہ فرسٹ‘ کے نظریے کے تحت ٹرمپ ہر وہ قدم اُٹھانے کو تیار ہے جس سے اس کے دعوے درست ثابت ہوں اور عوامی پذیرائی میں مزید اضافہ ہو لیکن اس سے ہمیں کیا سروکار؟
ہمارا سر درد تو ہماری اندرونی سیاست ہے۔ جس میں تحریک انصاف کی باہر بیٹھی قیادت سر توڑ کوشش کر رہی تھی کہ ٹویٹس اور خطوط کے بعد امریکی وزیر خارجہ یا صدر ان کے حق میں آواز اُٹھائیں۔ لیکن اس بابت کچھ کہنے کے بجائے ٹرمپ پاکستانی حکومت کا شکریہ ادا کرتے رہے۔
ثابت ہوا کہ ریاستوں کے بیچ تعلقات محض انفرادی پسند ناپسند کی بنیاد پر نہیں بلکہ ریاستوں کے مجموعی مفادات کے تابع ہی آگے بڑھتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جو ولسن اور ان کے ایک اور ساتھی کانگریس مین کے امریکی وزیر خارجہ کو کپتان کے حق میں لکھے گئے خط کے جواب میں تاحال کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
وزیر خارجہ مارکو روبیو بھی بخوبی جانتے ہوں گے کہ اس وقت ان کے خفیہ ادارے پاکستانی اداروں کے ساتھ مل کر کس مشن پر مصروف عمل ہیں اور اس مشن کا ان کے وعدوں اور دعووں سے تعلق کس قدر گہرا تعلق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کانگریس مین جو ولسن کے انفرادی توجہ دلاؤ خط کے جواب میں مکمل خاموش رہے۔
لیکن کیا یہ شکریہ کافی ہے؟ جواب ہے کہ نہیں۔ پاک امریکہ تعلقات ایسے معاملات میں اکثر ٹرانزیکشنل نوعیت کے رہے ہیں۔ سرکار البتہ اس واقعے کے بعد امریکی اسلحے کی واپسی کے اعلان پر امریکہ سے تگڑی امیدیں وابستہ کیے ہوئے ہے جس کے لیے سٹریٹیجک تعاون کی راہیں کھل سکتی ہیں۔
رہ گئی تحریک انصاف کی کوششیں تو وہ باہر سے بھی جاری رہیں گی اور اندر سے بھی، اس کے لیے اصل امتحان مولانا کا ہے۔ مولانا اگر گرینڈ اپوزیشن الائینس کی ٹرین کا انجن بنتے ہیں تو سرکار کے لیے صورتحال پریشان کن ثابت ہوگی۔ تادمِ تحریر مولانا کے وچار بتلاتے ہیں کہ وہ وقت سے پہلے کسی بڑے ایڈوینچر کے موڈ میں نہیں ہیں۔ 

 

شیئر: