پاکستان کا خلائی تحقیقاتی ادارہ پاکستان سپیس اینڈ اپر ایٹموسفیئر ریسرچ کمیشن (سپارکو) چین کے اشتراک سے اکتوبر/ نومبر 2026 میں اپنا پہلا خلاباز چین کے خلائی سٹیشن پر بھیجے گا۔
لیکن یہاں یہ جاننا ضروری ہے کہ سپارکو کی جانب سے دو خلابازوں کے انتخاب کا عمل کیسے مکمل ہو گا اور وہ کتنے عرصے میں اپنی تربیت مکمل کریں گے؟
سپارکو کے ڈائریکٹر جنرل (ٹیکنیکل) محمد عثمان صادق نے اس بارے میں اُردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’سپارکو کے خلاباز کے لیے انجینیئرنگ یا سائنس کے شعبے میں سے امیدواروں کا انتخاب اکتوبر تک مکمل کر لیا جائے گا جس کے بعد دونوں پاکستانی خلاباز چین کے ایسٹروناٹ سینٹر میں تربیت حاصل کریں گے۔‘
اُن کا کہنا تھا کہ ’عمومی طور پر خلائی مشن کے لیے فائٹر پائلٹس کو ترجیح دی جاتی ہے کیوں کہ ایک فائٹر پائلٹ نے پہلے سے اپنا مطلوبہ معیار اور ٹریننگ مکمل کی ہوتی ہے۔ تاہم اب ٹیکنالوجی کے زیادہ ایڈوانس ہونے سے سائنس، ٹیکنالوجی اور انجینیئرنگ کے شعبے سے ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کی ڈگری رکھنے والے عام شہری بھی خلاباز بننے کے اہل سمجھے جاتے ہیں۔‘
مزید پڑھیں
-
’تاریخ میں دوسری بار‘ امریکی خلائی جہاز کی چاند پر کامیاب لینڈنگNode ID: 886648
اُنہوں نے اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ ’سپارکو اسی معیار کو مدنظر رکھتے ہوئے مخلتف جامعات سے اور براہ راست بھی 30 سے 45 برس کی عمر تک کے امیدواروں کی فہرست مرتب کرے گا اور پھر یہ فہرست چین کے خلائی مشن کو بھیجی جائے گی جس کے بعد اتفاقِ رائے سے اکتوبر 2025 تک پاکستان کے دو خلابازوں کا نام فائنل کر لیے جائیں گے۔‘
تاہم اُنہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ تعلیم اور عمر کے ساتھ ساتھ امیدواروں کے لیے طبی اور جسمانی طور پر صحت مند ہونا بھی بہت ضروری ہے۔ اس تناظر میں انتخاب کے عمل کے دوران امیدواروں کی صحت اور فٹنس پر خصوصی توجہ دی جائے گی۔

خلابازوں کے انتخاب کے بعد کیا ہو گا؟
خلابازوں کا انتخاب مکمل ہونے کے بعد اگلا مرحلہ اُن کی تربیت کا ہو گا۔ سپارکو کے ڈائریکٹر ٹیکنیکل محمد عثمان صادق نے خلابازوں کی تربیت کے حوالے سے بتایا ہے کہ ’رواں برس اکتوبر میں خلابازوں کے انتخاب کا عمل مکمل ہونے کے بعد اُنہیں چین بھیجا جائے گا جہاں وہ چین کے ایسٹروناٹ سینٹر میں 8 ماہ کی طویل تربیت حاصل کریں گے۔‘
دو خلابازوں میں سے ایک مشن پر کیوں بھیجا جائے گا؟
سپارکو کی جانب سے پاکستان بھر سے امیدواروں میں سے صرف دو کو پاکستان کا پہلا خلاباز بننے کے لیے چنا جائے گا تاہم ان دو میں سے بھی ایک خلاباز کو ہی آئندہ برس اکتوبر/ نومبر تک چائنا سپیس سٹیشن (سی ایس ایس) سے خلائی مشن پر بھیجا جائے گا۔
محمد عثمان صادق نے دو میں سے ایک خلاباز کو مشن پر بھینے کی وجوہات بیان کرتے ہوئے کہا کہ ’عالمی سطح پر کسی بھی خلائی مشن کے لیے ایک سے زیادہ خلابازوں کو تربیت دی جاتی ہے کیونکہ اگر ٹریننگ کے دوران یا اُس کے مکمل ہونے کے بعد کوئی ایک خلاباز بیماری یا کسی اور مسئلے کا شکار ہو جائے تو اُس صورت میں مشن کو ملتوی ہونے سے بچانے کے لیے ایک اور مکمل تربیت یافتہ خلاباز کا ہونا ضروری ہے۔‘
اُن کا کہنا تھا کہ ’دونوں خلابازوں کو ایک جیسی ٹریننگ دی جائے گی تاہم خلائی مشن کی لانچنگ سے قبل مجموعی حالات اور معیار کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک خلاباز کو مشن پر بھیجا جائے گا جبکہ دوسرا خلاباز متبادل کے طور پر ہمارے پاس ہی موجود رہے گا۔‘

پاکستان اور چین کے درمیان خلائی تحقیق پر معاہدہ
اس سے قبل گزشتہ ہفتے خلائی ترقی کے اہم سنگ میل کے طور پر پاکستان کی خلائی ایجنسی پاکستان سپیس اینڈ اپر ایٹموسفیئر ریسرچ کمیشن اور چین کی مینڈ سپیس ایجنسی کے درمیان باہمی تعاون کے معاہدے پر دستخط ہوئے تھے جس کے تحت ہی پاکستان کے پہلے خلاباز کو تیانگونگ – چینی خلائی سٹیشن کے مشن پر روانہ کیا جائے گا۔
خلابازوں کا مشن
پاکستان کے خلابازوں کو خلائی مشن پر بھیجنے کے معاملے پر سپارکو نے اپنے اعلامیے میں بتایا ہے کہ ’پاکستان کے پہلے خلاباز کا مشن جدید سائنسی تجربات پر مشتمل ہو گا جن میں حیاتیاتی و طبی سائنس، ایرو اسپیس، اطلاقی طبیعات، سیال میکینکس، خلائی تابکاری، ماحولیات، مٹیریلز سائنس، مائیکروگریویٹی سٹڈیز اور فلکیات جیسے شعبے شامل ہوں گے۔‘
اعلامیے کے مطابق چین کا سپیس سٹیشن جدید تجرباتی سہولیات اور بیرونی آلات سے لیس ہے جو ان شعبوں میں وسیع تحقیق کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔ ان تجربات کے نتائج طبی تحقیق، ماحولیاتی نگرانی اور خلائی ٹیکنالوجی میں نمایاں ترقی کا باعث بنیں گے جن کے اثرات زمین پر انسانی زندگی کے فائدے میں استعمال ہو سکیں گے۔

ماہرین کی رائے
خلائی تحقیق کے ماہر سائنس دان ڈاکٹر قمر السلام سمجھتے ہیں کہ ’چین مختلف عالمی ممالک کی طرح پاکستان کو بھی اپنے خلاباز چین کے سپیس سٹیشن بھیجنے کا موقع فراہم کر رہا ہے جہاں مختلف قسم کے تجربات کیے جاتے ہیں۔ اسی مقصد کے پیش نظر پاکستان سے ایک خلاباز بھی چین کے مشن کے ساتھ روانہ ہو گا۔‘
اُنہوں نے اس سوال کے جواب میں کہ فائٹر پائلٹس کو خلاباز بننے میں ترجیح کیوں دی جاتی ہے کہ جواب میں بتایا کہ ’فائٹر پائلٹس کی ٹریننگ، فٹنس اور ماحول کے ساتھ ایڈجسمنٹ کی صلاحیت ایک عام امیدوار سے کئی گنا زیادہ ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے دنیا بھر میں فائٹر پائلٹس کو خلائی مشن پر بھیجنے کے حوالے سے ترجیح دی جاتی ہے۔‘