’سلمان نے ہمیں خبر دی اور خبر سنتے ہی سب سجدہ شکر ادا کرنے لگ گئے کہ امجد یاسین زندہ ہیں اور انہیں بحفاظت انجن سے نکال لیا گیا ہے۔ جتنی افسردگی پھیلی تھی اس سے کئی گنا زیادہ ہمیں خوشی ہوئی ہے۔ ہمیں مبارکباد کے فون کالز موصول ہو رہے ہیں۔ امجد بھائی بالکل سلامت ہیں اور وہ محفوظ مقام پر منتقل کیے جا چکے ہیں۔‘
یہ کہنا تھا جعفر ایکسپریس کے ڈرائیور امجد یاسین کے کزن ’امامہ‘ کا جو اپنا اصلی نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے مطابق امجد یاسین کی اہلیہ اور بیٹے کوئٹہ سے قصور کے لیے روانہ ہو چکے ہیں اور چند ہی گھنٹوں میں وہ قصور پہنچ جائیں گے۔
ریلوے حکام نے کوئٹہ میں اردو نیوز کے نامہ نگار زین الدین احمد سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی کہ جعفر ایکسپریس کے ڈرائیور امجد یاسین زندہ ہیں اور انہوں نے اپنی فیملی سے بات بھی کر لی ہے۔
مزید پڑھیں
منگل کو کالعدم تنظیم بلوچستان لبریشن آرمی(بی ایل اے) کی جانب سے کوئٹہ سے پشاور جانے والے جعفر ایکسپریس پر حملہ کیا گیا تھا جس کے بعد متعدد مسافروں کو ٹرین میں ہی یرغمال بنایا گیا۔
افواج پاکستان کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف کے مطبق جعفر ایکسپریس کے مسافروں کو یرغمال بنانے والے تمام 33 دہشت گردوں کو ہلاک کردیا گیا ہے۔
بدھ کی رات دنیا نیوز سے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے انہوں ںے بتایا کہ ’تمام یرغمالیوں کو بازیاب کروا لیا گیا ہے اور کلیئرنس آپریشن میں کسی مسافر کو نقصان نہیں پہنچا۔‘
جعفر ایکسپریس چلانے والے امجد یاسین کا آبائی تعلق پنجاب کے ضلع قصور کی تحصیل چونیاں سے ہے۔ تاہم وہ 1974 میں کوئٹہ میں پیدا ہوئے۔
ابتدائی طور پر عسکریت پسندوں کی جانب سے انہیں قتل کرنے کی خبر موصول ہوئی تھی تاہم اب تصدیق ہوگئی ہے کہ وہ زندہ ہیں۔ اس سے قبل ان کی فیملی اس حوالے سے تذبذب کا شکار تھی۔

امجد کے والدین کا تعلق پنجاب کے ضلع قصور کی تحصیل چونیاں سے تھا۔ وہ چونیاں کے علاقے چھانگا مانگا میں چک 17 سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کا پورا خاندان اسی علاقے میں مقیم ہے۔ امجد یاسین کے دو بھائی عامر یاسین اور ارشد یاسین بھی کوئٹہ میں رہتے ہیں جبکہ ان کی دو بہنیں بھی ہیں۔ ارشد یاسین بھی ریلوے میں ملازمت کرتے ہیں۔ ابھی چند سال قبل تک وہ کوئٹہ میں ملازمت کرتے تھے جس کے بعد ان کا تبادلہ پنجاب ہوگیا۔ عامر یاسین کوئٹہ میں میڈیسن کے کاروبار سے وابستہ ہیں جو اس وقت کوئٹہ میں موجود ہیں۔
امجد یاسین کے خالہ زاد بھائی رفیق (فرضی نام) کی آواز میں بے یقینی تھی جب انہوں نے کہا ’ہم نے مختلف چینلز پر امجد یاسین کی موت کے حوالے سے خبر دیکھی تھی لیکن اس خبر کی تصدیق نہیں ہو رہی تھی۔ ہم صرف یہ دعا کر رہے تھے کہ جو خبر گردش کر رہی ہے وہ غلط ہو کیونکہ ہمیں مصدقہ طور پر کچھ نہیں معلوم تھا۔ ابھی ان کے زندہ ہونے کے حوالے سے خبر آئی تو ہماری جیسے عید ہوگئی۔‘
منگل کو چونیاں میں امجد یاسین کے پھوپھو کو دفنائے تین گھنٹے بھی نہیں گزرے تھے کہ خاندان والوں کو جعفر ایکسپریس پر حملے کی خبر موصول ہوئی۔ یہ خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیلی اور خاندان سوگ سے صدمے کی کیفیت میں چلا گیا۔ ہر ٹی وی چینل اور سوشل میڈیا پر یہ خبر گردش کر رہی تھی۔
امجد یاسین کے خالہ زاد بھائی کا کہنا ہے ’گذشتہ روز ہماری پھوپھو کا انتقال ہوا تھا۔ ان کے جنازہ کے بعد ابھی 3 گھنٹے ہی گزرے تھے کہ اس واقعے کی خبر آئی۔ سب کو معلوم تھا کہ اس ٹرین کا ڈرائیور امجد یاسین ہیں اس لیے ہماری حالت غیر ہوگئی تھی۔‘
امجد یاسین نے ابتدائی تعلیم کے بعد ریلوے میں ملازمت اختیار کی۔ انہوں نے کوئٹہ سے بی ایس سی تک تعلیم حاصل کی تھی۔ ان کی ایک بیٹی اور دو بیٹے ہیں۔ ان کی بیٹی کی شادی ہو چکی ہے۔ ان کا ایک بیٹا ابھی سیکنڈ ائیر جبکہ دوسرا بیٹا تھرڈ ائیر کا طالب علم ہے۔
