دو ہزار آٹھ نو کی بات ہے جب پرائیویٹ ٹی وی نیوز چینلز کا نیا نیا بوم تھا۔ آئے روز ملک بھر میں دہشت گردی کے واقعات رپورٹ ہو رہے تھے۔ کراچی سے کوئٹہ اور پشاور سے لاہور: ہر بڑے شہر سے افسوسناک خبریں موصول ہوا کرتی تھیں۔
براہ راست کوریج بذریعہ ڈی ایس این جی وین کی جدت ٹی وی چینلز کے درمیان مقابلہ بازی کی فضا کو جنم دے چکی تھی۔ ہر نیوز چینل کے ہاں سب سے پہلے سب سے تیز کی دوڑ تھی۔ کسی بھی اہم ایونٹ کے مناظر مع براہ راست رپورٹنگ سب سے پہلے نشر کرنا ایک اعزاز سمجھا جاتا تھا اور چینلز اپنی کوریج کے درمیان ایسے مناظر پر سفید رنگ سے جلی حروف میں ایکسکلوزیو لکھا کرتے تھے۔ اینکرز ہوں یا رپورٹرز سبھی لفظ ’ایکسکلوزیو‘ کے پُچاری بن چکے تھے۔
یاد پڑتا ہے کہ ہم یونیورسٹی کے طالب علم تھے، اور انہی دنوں ایکسپریس نیوز میں ملازمت بھی ہوئی تھی۔ بھرتی بطور رپورٹر ہوئی، جو بعد میں بطور اینکر کر دی گئی۔ لہذا ایسی نشریات اور ایسی کوریج کا فرسٹ ہینڈ تجربہ قدرے بہتر رہا۔
مزید پڑھیں
-
احتجاج، مذاکرات، خط اور اب گرینڈ الائنس؟ اجمل جامی کا کالمNode ID: 885491
-
کہانی ٹیم پاکستان کے سپر سٹارز کی! اجمل جامی کا کالمNode ID: 886513
-
ٹرمپ کے شکریے کا مطلب کیا ہوگا؟ اجمل جامی کا کالمNode ID: 886820
ایک وقت ایسا بھی آیا جب دہشت گردی کے واقعات کی کوریج میں بھی چینلز کے بیچ سب سے پہلے سب سے تیز اور ’ایکسکلوزیو‘ مناظر دکھانے کی دوڑ لگ گئی۔ اس دوڑ میں ایڈیٹرز اور ڈائریکٹر نیوز یہ بھول گئے کہ ان مناظر کے چکر میں مسلسل خون اور دہشت گردی کے ہولناک مناظر سنسر کیے بغیر تواتر کے ساتھ نشر کیے جا رہے ہیں۔
رپورٹرز مسلسل ایک جیسے جملے بول بول کر تھک رہے تھے، تو سٹوڈیوز میں بیٹھے اینکرز بھی طویل دورانیے کی ایسی نشریات کے ہنگام کانٹینٹ کی رپیٹیشن سے عاجز آ رہے تھے۔ اس وقت کے فیصلہ ساز ہوں یا سیاستدان، صحافی ہوں یا تجزیہ نگار سبھی اس اہم نکتے سے بے خبر تھے کہ ایکسکلوزیو کی دوڑ میں وہ کچھ میڈیائی تمغے تو شاید اپنے سینے پر سجا لیں، لیکن درحقیقت وہ غیر دانستہ طور پر دہشت گردوں کا ایک خفیہ ایجنڈہ بھی پورا کر رہے ہیں۔
دہشت گرد کے اہم ترین مقاصد میں قیمتی جانوں کا ضیاع یا ریاستی رٹ کو چیلنج کرنا تو ہوتا ہی ہے، لیکن وہ اور اس کے ہینڈلر ایسی وارداتوں کے ذریعے درحقیقت کوریج اور ہائپ مانگ رہے ہوتے ہیں۔ دہشت گردی کے کسی ایونٹ کی 24 گھنٹے کوریج اور براہ راست ہولناک اور خون آلود مناظر سے دہشت گرد کی اصل تسکین کا سامان پیدا ہو رہا تھا۔
نتیجے میں معاشرہ بھی غیریقینی کی سی صورتحال اور گھبراہٹ کا شکار ہو رہا تھا۔ بھلے وقت تھے کہ جیسے ہی اس وقت کے نیوز ڈائریکٹرز کو اس بات کا ادراک ہوا تو وہ ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی دوڑ کو روکتے ہوئے فوراً مل بیٹھے۔ تب تک نیوز چینلز میں واقعتاً صحافی ہی ڈائریکٹر نیوز ہوا کرتے تھے۔ ملک بھر کے تمام چینلز کے جید صحافی ڈائریکٹر نیوز صاحبان نے طے کیا کہ آئندہ ٹی وی سکرینوں پر خون آلود مناظر نشر نہیں ہوں گے۔ آئندہ سب سے پہلے کی دوڑ میں سنسنی نہیں پھیلائی جائے گی، آئندہ دہشت گردوں کو ہائپ نہیں فراہم کی جائے گی۔ آئندہ خون آلود مناظر نشر نہیں کیے جائیں گے۔
ایک طویل نکاتی پلان آف کوریج تھا جو باہمی رضامندی کے ساتھ انتہائی پروفیشنل پیمانوں پر مرتب کیا گیا جس میں اس بابت بہر حال خصوصی خیال رکھا گیا کہ خبر کی صحت اور اس کی اشاعت کسی طور متاثر نہ ہو۔ یہ اعلامیہ تمام نیوز رومز تک جا پہنچا، قومی عسکری و سیاسی قیادت ہو یا ملک کا دانشور طبقہ، سبھی نے اس کاوش کو خوب سراہا۔
اس بیچ کئی ایک واقعات پیش آئے، مگر چینلز پر واقعات کی کوریج کا بلیک آؤٹ ہوا نہ ان واقعات کی غیر ذمہ دارانہ کوریج بلکہ انتہائی ذمہ داری سے خبر نشر ہوئی، تفصیلات شیئر کی گئیں، مناظر دکھائے گئے، براہ راست رپورٹنگ بھی کی گئی مگر عین اس گائیڈ لائن کے مطابق جو پروفیشنل صحافیوں نے مرتب کی تھی۔ اس بیچ ہم نے سی این این پر عراق جنگ کی کوریج کی اینگلنگ بھی سمجھی اور اور ان کی یکطرفہ کوریج کا بھی بغور مشاہدہ کیا۔ معلوم ہوا کہ اس گائیڈ لائن کے بعد ہمارے مقامی چینلز دنیا بھر کے عالمی اداروں کی نسبت زیادہ پروفیشنل اپروچ کا مظاہرہ کر رہے تھے۔

یہ کہانی پھر بعد کی ہے کہ اس گائیڈ لائن کا بیڑہ غرق کیوں اور کیسے ہوا۔ فی الحال اس طویل مدعے کا ذکر جعفر ایکسپریس پر ہوئے افسوسناک حملے سے ہے۔ سیاسی رد عمل ہو یا معاشرتی، سوشل میڈیائی پاگل پن ہو یا جائز گلے شکوے، سکیورٹی ڈومین ہو یا بین الاقوامی ایجنڈہ، رد عمل بحیثیت مجموعی زہریلا تھا۔
انڈین چینلز پر فیک ویڈیو کی بھرمار تھی، نیوز ویب پورٹلز سنسنی پھیلانے میں پیش پیش تھے، سوشل میڈیا پر کی بورڑ واریئرز مسلسل ہنگامہ برپا کیے ہوئے تھے۔ وجوہات تو خیر ان گنت ہیں لیکن بنیادی وجہ وہی ہے جس کے کارن اس قدر طویل قصے سے اس تحریر کا آغاز کیا۔
مکمل بلیک آؤٹ حل ہے نہ خون آلود مناظر کی نشریات سے دہشت گردی کی ہائپ۔ کاش بچے کھچے کچھ پروفیشنل صحافی ذمہ دار پھر مل بیٹھیں اور سیاسی و غیر سیاسی قیادت کی سپورٹ کے بعد پھر سے ایک ایسی گائیڈ لائن مرتب کر لیں کہ جس سے خبر کی حرمت اور نشر و اشاعت بھی یقینی ہو جائے، اور سنسنی خیزی اور فیک معلومات کا تدارک بھی۔ میڈیا کے لیے رولز آف دی گیمز کی اصل تبدیلی یہی ہوگی۔