Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے غزہ کی جنگ بندی کیوں ختم کی؟

منگل کو اسرائیلی حملوں میں سینکڑوں فلسطینی ہلاک ہوئے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
منگل کو غزہ کی پٹی میں اسرائیلی حملوں کی تازہ لہر میں سینکڑوں فلسطینیوں کو ہلاک ہو گئے، یہ وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی حماس کے ساتھ جنگ بندی سے باہر نکلنے کی کوششوں کا خاتمہ تھا، جس پر انہوں نے جنوری میں اتفاق کیا تھا۔
امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق جنگ کے آغاز کے بعد سے، نیتن یاہو کو دباؤ کا سامنا ہے، یرغمالیوں کے اہل خانہ چاہتے ہیں کہ وہ حماس کے ساتھ ان کی رہائی کے لیے معاہدہ کر لیں، جبکہ ان کے انتہائی دائیں بازو کے اتحادی عسکریت پسند تنظیم کو ختم کرنے کے لیے جنگ جاری رکھنا چاہتے ہیں۔
منگل کو انہوں نے موخرالذکر کو ترجیح دی، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے بھی نیتن یاہو کے یکطرفہ طور پر جنگ بندی کے معاہدے سے پیچھے ہٹنے کی فیصلے کی حمایت کی ہے۔
اسرائیل اور امریکہ دونوں نے پھر سے شروع ہونے والے تنازع کا الزام حماس پر عائد کیا ہے، کہ اس نے یرغمالیوں کی رہائی سے انکار کیا ہے۔ 
اسرائیل نے حماس پر ثبوت فراہم کیے بغیر نئے حملوں کی تیاری کا الزام لگایا، تاہم عسکریت پسند تنظیم نے ان الزامات کو مسترد کر دیا ہے۔
حماس جو ابھی تک اسرائیلی حملوں کا فوجی جواب نہیں دے سکی ہے، کئی ہفتوں سے جنگ بندی کے معاہدے کے دوسرے مرحلے پر سنجیدہ بات چیت کا مطالبہ کر رہی ہے۔ جس میں مزید فلسطینی قیدیوں کے بدلے باقی رہ جانے والے یرغمالیوں کی رہائی، غزہ سے اسرائیلی فوج کا مکمل انخلا اور ایک مستقل جنگ بندی شامل ہے۔
نیتن یاہو نے جنگ بندی سے پیچھے ہٹنے کا فیصلہ کیوں کیا؟
ایک مستقل جنگ بندی پر رضامندی ظاہر کرنا نیتن یاہو کو ایک سیاسی بحران میں دھکیل دیتا، جو ان کی 15 سالہ مسلسل حکمرانی کا خاتمہ کر سکتا تھا۔
انتہا پسند دائیں بازو کے وزیر خزانہ بیزلیل سموترچ نے نیتن یاہو کو دھمکی دی تھی کہ اگر وہ دوبارہ حملے شروع کرنے کی بجائے جنگ بندی کے دوسرے مرحلے کی جانب بڑھتے ہیں تو وہ اتحاد چھوڑ دیں گے۔

غزہ سرحد کے قریب ایک اسرائیلی یرغمالی کی والدہ نے حملوں کے خلاف احتجاج کیا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

اپوزیشن جماعتوں نے کسی بھی معاہدے میں ان کی حمایت کرنے کا وعدہ کیا ہے جو یرغمالیوں کو واپس لائے، تاہم ان کا اتحاد پھر بھی شدید کمزور ہو جائے گا، جس سے جلد انتخابات کا امکان بڑھ جائے گا۔
لڑائی دوبارہ شروع کرکے، نیتن یاہو نے سموتریچ کی مسلسل حمایت کو یقینی بنایا۔ حملوں کے بعد اسرائیلی رہنما نے ایک اور انتہا پسند اتحادی، ایتمار بن گویر کو دوبارہ اپنے ساتھ ملا لیا، جس کی پارٹی جنوری میں جنگ بندی کے معاملے پر اتحاد چھوڑ گئی تھی۔
حماس نے 15 ماہ تک اسرائیلی بمباری اور زمینی آپریشنز کا مقابلہ کیا، جن میں مقامی محکمہ صحت کے مطابق 48 ہزار سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہوئے اور غزہ کا بیشتر حصہ بھی تباہ ہو گیا۔

18 مارچ کو اسرائیل نے غزہ پر شدید بمباری کی۔ (فوٹو: اے ایف پی)

جب جنگ بندی ہوئی تو اس جنگجو تنظیم نے فوراً اپنے اقتدار کو دوبارہ مستحکم کر لیا۔
جنگ کے بعد غزہ پر حکومت کرنے کے حوالے سے کوئی اتفاق رائے نہیں، اگر مغرب کی حمایت یافتہ فلسطینی اتھارٹی کو رسمی طور پر کنٹرول دیا جاتا ہے، تب بھی حماس کا اثر و رسوخ ہوگا اور وہ اپنی صلاحیتوں کو دوبارہ بنا سکتے ہیں۔
بہت سے اسرائیلیوں، اور خاص طور پر نیتن یاہو کے سخت گیر حامیوں اور دائیں بازو کے اتحادیوں کے لیے یہ شکست کی طرح نظر آئے گا۔ یہ سات اکتوبر کے حملے اور سکیورٹی کی ناکامیوں کے حوالے سے کی جانے والی تنقید میں بھی اضافے کا سبب بنے گا۔ اس حملے میں 12 سو افراد ہلاک ہوئے تھے اور 251 افراد کو یرغمال بنایا گیا تھا۔
نیتن یاہو نے عارضی جنگ بندی کو کیسے ختم کیا؟
جنگ بندی معاہدے کا پہلا مرحلہ ختم ہونے کے بعد، نیتن یاہو نے کہا کہ اسرائیل نے ایک نئی امریکی تجویز کو تسلیم کیا ہے، جس میں جنگ بندی میں مزید سات ہفتوں کی توسیع کے بدلے حماس یرغمالیوں کو رہا کرے گی اور طویل المدتی جنگ بندی کے لیے مذاکرات شروع کرنے کا مبہم وعدہ کیا گیا تھا۔
حماس نے اس تجویز کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ نئی تجویز اس معاہدے سے مختلف ہے جس پر انہوں نے جنوری میں اتفاق کیا تھا۔
یہ بھی پیشکش کی گئی کہ ایک امریکی اسرائیلی اور چار دیگر یرغمالیوں کی لاشیں واپس کر دی جائیں تاکہ مذاکرات کو دوبارہ شروع کیا جا سکے۔ مگر اسرائیل نے اسے ’نفسیاتی جنگ‘ قرار دے کر مسترد کر دیا۔

ٹرمپ انتظامیہ نے نیتن یاہو کے یکطرفہ طور پر جنگ بندی کے معاہدے سے پیچھے ہٹنے کی فیصلے کی حمایت کی۔ (فوٹو: اے ایف پی)

ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے لیے ایلچی سٹیو وٹکوف نے کہا ہے کہ حماس عوامی سطح پر لچک دکھانے کا دعویٰ کر رہی ہے، جبکہ وہ مکمل طور پر غیرعملی مطالبات کر رہی ہے۔
حماس سے نئے معاہدے کے لیے اسرائیل نے غزہ میں خوراک، ایندھن اور دیگر امداد کا داخل روک دیا تھا۔ اس کے بعد اسرائیل نے بجلی کی فراہمی بھی منقطع کر دی تھی۔
حالیہ دنوں میں اسرائیل نے غزہ میں حملے تیز کر دیے تھے، لوگوں کو نشانہ بنایا اور کہا کہ یہ دھماکہ خیز مواد نصب کر رہے تھے یا دیگر مسلح سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔

 

شیئر: