خیبر پختونخوا کے ضلع شانگلہ میں پچھلے دنوں ایک غیرمعمولی احتجاج سامنے آیا اور مقامی آبادی نے تحصیل الپوری کے اسسٹنٹ کمشنر ڈاکٹر حامد صدیق کے تبادلے کے حکومتی فیصلے کے خلاف آواز اٹھائی۔
صوبائی حکومت نے اسسٹنٹ کمشنر الپوری کا تبادلہ ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے پہاڑ پور کیا ہے۔
اس سے قبل وہ 16 جون 2022 کو ضلع شانگلہ کی ہی تحصیل چکیسر میں تعینات ہوئے، لیکن انہیں گذشتہ سال اکتوبر میں الپوری تبدیل کیا گیا، جہاں انہوں نے مارچ 2025 تک خدمات انجام دیں۔
تاہم جیسے ہی تبادلہ ڈیرہ اسماعیل خان کیا گیا تو مقامی لوگوں نے چار روز تک احتجاج ریکارڈ کروایا اور فیصلے کو واپس لیے جانے کا مطالبہ کیا۔
مقامی لوگوں کے مطابق ’یہ تبادلہ مبینہ طور پر مافیا کے دباؤ کا نتیجہ ہے جس کے خلاف ڈاکٹر حامد صدیق نے حال ہی میں سخت اقدامات کیے تھے۔‘
اس دوران ضلع شانگلہ کے نوجوانوں نے سوشل میڈیا پر بھی مہم چلائی اور حکومتی اراکین نے بھی عوام کو یقین دلایا کہ یہ تبادلہ واپس لے لیا جائے گا۔
مزید پڑھیں
-
سکول کینٹین میں سموسے بیچنے سے اسسٹنٹ کمشنر بننے تکNode ID: 565311
-
کراچی نارتھ ناظم آباد کے ’کول اور ماڈرن‘ اسسٹنٹ کمشنرNode ID: 740141
ممبر صوبائی اسمبلی حاجی عبدالمنعم نے چیف سیکریٹری خیبرپختونخوا سے ملاقات کر کے عوامی جذبات سے آگاہ کیا جبکہ شانگلہ سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر انجینیئر امیر مقام نے بھی ایک پیغام میں اس تبادلے کو رکوانے میں مدد فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی، تاہم گذشتہ روز اے سی ڈاکٹر حامد صدیق کو عوام نے باقاعدہ رخصت کیا۔
اس موقع پر نوجوانوں سمیت علاقے کے دیگر لوگ بھی موجود تھے۔
یوتھ آف شانگلہ تنظیم کے صدر محمد ادریس خان کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس میں وہ ڈاکٹر حامد صدیق سے ملتے وقت اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے اور آبدیدہ ہوتے ہوئے انہیں سے گلے ملے۔

انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’اچانک تبادلے پر عوام اور سماجی حلقوں میں شدید مایوسی اور غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ ڈاکٹر محمد حامد صدیق ایک ایماندار، دیانت دار اور عوام دوست افسر تھے۔ انہوں ننے اپنی مدت ملازمت میں بے شمار مثبت اقدامات کیے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ان کا تبادلہ علاقے کے ساتھ ناانصافی ہے۔‘
جب ڈاکٹر حامد صدیق کا تبادلہ تحصیل چکیسر سے الپوری ہوا تو انہوں نے اپنے دفتر کے باہر ایک نوٹس لگایا جس پر لکھا تھا کہ ’اس دفتر میں طاقتور کو کمزور اور کمزور کو طاقتور ترین سمجھا جاتا ہے لہٰذا بلاجھجھک تشریف لائیں۔‘
محمد ادریس نے اسی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’وہ ہمیشہ عوام کے لیے دستیاب رہتے تھے اور ان کی قیادت میں تحصیل میں مثبت تبدیلیاں دیکھنے کو ملیں۔ ان کی انتظامی صلاحیتوں اور عوامی خدمت کے جذبے کو سبھی سراہتے ہیں۔‘
تاہم الپوری کے ہی رہائشی علی باش خان ان کی کارکردگی سے مطمئن نہیں اور احتجاج کو سوشل میڈیا مہم کا حصہ قرار دیتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ’ڈاکٹر حامد صدیق اور ان کے عملے کو سوشل میڈیا سے خاص لگاؤ تھا۔ اور ان کے حامی ان کی ویڈیوز شیئر کرتے تھے۔ موجودہ دور سوشل میڈیا کا ہے، اسی لیے انہیں اس قدر پذیرائی ملی تاہم انہوں نے ایسے کاموں میں بھی ہاتھ ڈالا تھا جو عوامی مفادات سے براہِ راست تعلق نہیں رکھتے تھے۔‘
علی باش کا کہنا ہے کہ ’نوجوان ان سے متاثر تھے تاہم ان کے خیال میں نوجوانوں نے قومی مسائل کے بجائے غیر اہم معاملات پر توجہ مرکوز رکھی۔‘
ان کے مطابق ’حامد صدیق نے سوشل میڈیا کے رجحانات کو سمجھا اور اپنی شناخت اس طرح بنائی کہ دہائیوں تک انہیں یاد رکھا جائے گا۔‘
رخصتی کے وقت حامد صدیق پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کی گئیں اور وہ مسلسل لوگوں کا شکریہ ادا کرتے رہے۔
انہوں نے اردو نیوز سے بات چیت میں شانگلہ میں بطور اے سی کام کو اعزاز قرار دیا۔

’عوام کے مسائل حل کرنا اور انہیں عزت دینا ہمارا فرض تھا جس کو نبھانے کی ہر ممکن کوشش کی۔‘
حامد صدیق نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’عوام کی نظر میں سرکاری دفاتر کا تاثر ہمیشہ سے خراب رہا ہے جو بالکل غلط نہیں ہے۔ ہماری سستی، غیرضروری التوا اور برا برتاؤ عوام میں نفرت پیدا کرتا ہے۔‘
’میں اس روایت کو بدلنا چاہتا ہوں اور اس مشن میں کسی حد تک کامیاب بھی رہا ہوں، اسے جاری رکھوں گا۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’تبادلے سروس کا حصہ ہیں، جن سے ہمارے علاقے تو بدل سکتے ہیں اردارے نہیں۔‘
ان کے تبادلے پر سماجی کارکن اور صحافی افسر افغان کا کہنا ہے کہ ’ڈاکٹر حامد صدیق کے تبادلے کے معاملے پر حکومتی اراکین، پی ٹی آئی قیادت اور دیگر اداروں کی جانب سے کمزور موقف سامنے آیا۔ وزیراعلیٰ اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے اس تبادلے کو روک سکتے تھے مگر ایسا نہ کرنا ان کی ناکامی ہے۔‘
ان کے بقول ’علی امین گنڈاپور انہیں اپنے علاقے میں منتقل کر دیا جس سے قیادت کی عدم فراست اور عوامی مفادات سے بے اعتنائی عیاں ہوتی ہے، جس سے مایوسی پھیلی۔‘'
اے سی کی رخصتی کے وقت عوامی جذبات کے حوالے سے افسر افغان کا کہنا تھا کہ ’عوام کی جانب سے آنسو بہانا اس بات کی علامت ہے کہ اگر کوئی اخلاص کے ساتھ کام کرے تو معاشرے پر گہرے نقوش چھوڑ جاتا ہے، اس لیے جدائی پر لوگ سوگوار ہوتے ہیں۔‘
تاہم دوسری جانب علی باش خان کا استدلال ہے کہ ’ڈاکٹر حامد صدیق کے کریڈٹ پر کوئی ایسا نمایاں کارنامہ نہیں جس کی بنیاد پر انہیں سراہا جائے، انہوں نے مختلف محکموں کی ذمہ داریاں خود ہی سنبھالیں۔‘

ان کے مطابق ’حامد صدیق نے فوڈ انسپکٹر، ڈرگ انسپکٹر یہاں تک کہ جنگلات کے امور بھی اپنے کنٹرول میں لے لیے تھے اور سوشل میڈیا پر پذیرائی سمیٹ رہے تھے۔‘
تاہم علی باش یہ اعتراف ضرور کرتے ہیں کہ ان کا دفتر عام لوگوں کے لیے کھلا رہتا تھا۔
’ان کی نمایاں خوبی یہ تھی کہ نظرانداز ہونے والے خاندانوں اور افراد پر خصوصی توجہ دی۔‘
ڈاکٹر حامد صدیق کا تعلق ضلع ایبٹ آباد سے ہے اور انہوں نے آسٹریلیا سے بائیو کیمسٹری میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ وہ پچھلے چار برس سے سول سروسز میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔
اس سے قبل انہوں نے پشاور اور حویلیاں میں فرائض انجام دیے اور تین برس سے ضلع شانگلہ میں تعینات تھے۔