پاکستان کے دفتر خارجہ نے پاکستانی ایکسپورٹ کمپنیوں پر امریکہ کی جانب سے عائد کی گئی پابندیوں پر تنقید کی ہے۔
پاکستان دفتر خارجہ کے ترجمان نے جمعرات کو ان پابندیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کے ذریعے ملک کے کمرشل اداروں کو ثبوت کے بغیر ناروا طور پر نشانہ بنایا گیا ہے۔
مزید پڑھیں
واضح رہے کہ امریکہ نے رواں ہفتے پاکستان، ایران، چین، متحدہ عرب امارات اور جنوبی افریقہ کی 70 کمپنیوں پر پابندیاں عائد کر دی تھیں۔
امریکہ نے ان پابندیوں کا جواز دیتے ہوئے کہا کہ ’ان کی سرگرمیاں امریکہ کی قومی سلامتی خارجہ پالیسی سے متصادم’ تھیں۔
اس کے علاوہ دفتر خارجہ نے بلوچ یکجہتی کمیٹی کے کارکنوں کی حمایت میں دیے گئے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ماہرین کے حالیہ بیان کو یکطرفہ قرار دیتے ہوئے اسے مسترد کر دیا ہے۔
گذشتہ روز اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ماہرین نے بلوچستان میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے خلاف کریک ڈاؤن کو بند کرنے اور اس کے کارکنوں کو رہا کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
جمعرات کو دفتر خارجہ کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا کہ ماہرین کے تبصروں میں توازن اور تناسب کا فقدان ہے، جو دہشت گرد حملوں میں عام شہریوں کی ہلاکتوں کو نظر انداز کرتے ہیں، جبکہ قانون شکن عناصر کے جرائم پر پردہ ڈالتے ہیں۔‘
ترجمان کے مطابق ’ان عناصر کی سرگرمیاں محض احتجاج نہیں بلکہ ایک منظم لاقانونیت اور تشدد کی مہم کا حصہ ہیں، جو عوام کی آزادانہ نقل و حرکت میں رکاوٹ ڈال رہی ہیں۔‘
دفتر خارجہ نے کہا کہ ’حکومت کے تمام اقدامات بین الاقوامی قوانین کے مطابق ہیں، جو دہشت گردی اور تشدد کو بھڑکانے کی سختی سے ممانعت کرتے ہیں۔ دہشت گردوں، ان کے سہولت کاروں یا مددگاروں کے لیے کوئی رعایت یا استثنیٰ نہیں ہو سکتا۔‘
ترجمان نے واضح کیا کہ ’تمام شہریوں کو آئینی حقوق کے مطابق انصاف کے حصول کے لیے مکمل قانونی اور ادارہ جاتی طریقہ کار دستیاب ہیں۔ پاکستان اقوام متحدہ کے خصوصی طریقہ کار کے مینڈیٹ ہولڈرز کے ساتھ تعمیری مکالمے کے لیے ہمیشہ تیار ہے اور یہ مشاورت باہمی احترام، غیر جانبداری اور حقائق کی بنیاد پر جاری رہے گی۔‘