ماضی کی انورادھا اور حال کی خدیجہ ، ہند سے واپس آئی تو سوکھ کر کانٹا ہو گئی تھی، وہ میرے گلے لگ کر رو دی
* * * * ممتاز شیریں۔دوحہ ،قطر* * * * *
اب تک آپ نے پردیس کہانی میں دیس کی محبت ،پردیس کی مشقت کی کہانی پڑھی ہوگی لیکن آج میں آپ کو ایک ایسی کہانی سنانے جا رہی ہوں جس میں پردیس ہی سائبان بن گیا ۔ یہ کہانی دارالکفر سے دار الاسلام تک کی ہے۔
یہ کہانی ’’من الظلمات الی النور‘‘ کی ہے۔ ہم تو پیدائشی مسلمان ہیں جنہیں کلمہ والدین کی طرف سے تحفے میں ملا ہے۔ اس کلمے کی قدر و منزلت کیا ہے ، یہ اس نو مسلم خاتون سے پوچھا جا سکتا ہے۔وہ راہ حق میں اٹھا ئی جانے والے تکالیف پر بلاشبہ اجر عظیم کی مستحق ہیں۔آئیے کہانی کو حقیقت کے رنگ سے شروع کرتے ہیں۔اس حقیقی کہانی کو لکھنے میں مجھے بہت دن لگے ،سمجھ نہیں آتا تھا کہ درد کو الفاظ میں کس طرح ڈھالوں:
دل کا احوال میں لکھوں کیونکر
ہاتھ دل سے جدا نہیں ہوتا
آج سے 20 سال قبل انورادھا اپنے شوہر اور ایک بچی کے ساتھ ہندوستان سے قطر بسلسلہ روزگار منتقل ہوئی تھی۔
شوہر معمولی مکینک تھا ۔گھر کی گاڑی چلانے کیلئے انورادھا نے بھی قریبی کلینک میں بطور نرس ملازمت کرلی۔ ذاتی طور پر میری انورادھا سے کوئی دوستی نہیں تھی۔ کبھی اپنی یا بچوں کی بیماری کے سلسلے میں کلینک جانا ہوتا تو ملاقات ہو جاتی۔ بلڈ پریشر چیک کرتے یاٹمپریچر دیکھتے ہوئے وہ ہلکی پھلکی گفتگو کرتی جاتی ۔اس گفتگو سے ہی مجھے اندازہ ہوتا تھا کہ وہ اسلام سے بہت متاثر ہے۔ جلد ہی سننے میں آیا کہ انورادھا اپنی دونوں بچیوں اور شوہر کے ساتھ مسلمان ہو گئی ہے۔میرے میاں بتاتے تھے کہ اس کا شوہر بہت پابندی سے 5وقت کی نماز ادا کرنے کے لئے باقاعدگی سے مسجدآتا ہے ۔
انورادھا کا مسلم نام خدیجہ اور اس کے شوہرجے پرکاش کامسلم نام عبداللہ رکھا گیا تھا۔ انورادھا کے مسلمان ہونے کے بارے میں جان کر میں نے اکرام کیلئے اس کو اپنے گھر کھانے پر بلایا تو اس سے پوچھا کہ تمہارے مسلمان ہونے کی خبر سن کر تمہارے اور شوہر کے گھر والوں کا کیا ردعمل ہے تو اس نے بتایا کہ دونوں طرف کے لوگوں نے ہم سے قطع تعلق کر لیا ہے۔ میری ساس کہتی ہیں کہ میں نے اس کے بیٹے پر جادو کر دیا ہے۔وہ سب ہم سے ناراض ہیں لیکن وہ ہمارے ماں باپ ہیں۔ اسلام ان کی تعظیم اور خدمت کا حکم دیتا ہے ۔ ہم ہندوستان جائیں گے تو انہیں منائیں گے ۔ہماری دعا ہے کہ وہ سب بھی کلمہ پڑھ لیں اور جہنم کی آگ سے بچ جائیں۔ اس کے بعد کبھی کبھار ہماری ملاقات ہیلتھ سینٹر میں ہی ہوتی تھی۔
وہ ایک دو دفعہ ہندوستان بھی گئی لیکن دونوں کے گھر والوں نے نہایت سختی کا معاملہ کیا چنانچہ یہ لوگ واپس آگئے۔دن اپنی پوری رفتار سے گزرتے رہے ۔میں اور وہ ایک کالونی میں رہتے ہوئے بھی اپنی اپنی گھریلو مصروفیات میں الجھ کر مہینوں نہیں مل پاتے تھے۔ 2016 ء کے رمضان کریم کاذکر ہے ،مجھے اچانک ایمرجنسی میں پاکستان جا نا پڑا ۔25 دن پاکستان میں گزار کرمیں واپس آئی تو پہلی خبریہ سننے کو ملی کہ عبداللہ کا انتقال ہو گیا ہے ۔یہ سن کرمجھے ایک جھٹکا سا لگا۔ بلا شبہ وہ ایک اچھا انسان تھا اور اب وہ دنیا میں نہیں رہا تھا۔ خدیجہ ان دنوں ہندوستان گئی ہوئی تھی۔ پتہ چلا کہ عبداللہ کا انتقال بھی ہندوستان میں ہی ہوا ۔ اب مجھے جو فکر تھی وہ یہ کہ خدیجہ اور عبداللہ دونوں کے گھر والے کٹر قسم کے ہندو تھے، معلوم نہیں انہوں نے میت کو دفنایاہوگا یانہیں۔ ایسا نہ ہو کہ جلادیاگیا ہو۔خدیجہ کے ساتھ وہاں کیا بیت رہی ہوگی ۔
میں نے خدیجہ کا سیل فون نمبر لینے کی بہت کوشش کی لیکن کہیں سے نہیں مل سکا۔ سمجھ نہیں آتا تھا کہ اب شوہر کے بغیر وہ واپس بھی آئے گی یا نہیں۔ دل میں عجیب سی بے چینی تھی۔ اسی دوران کسی نے بتایا کہ خدیجہ واپس آگئی ہے ۔میری بے تابی بڑھ گئی اور اسی رات میں اس سے ملنے پہنچ گئی۔اُف کس حال میں مَیں نے اس کو دیکھا۔ دبلی،سوکھ کر کانٹا ہو رہی تھی۔ بے حد سانولی ہو گئی تھی، سب رنگ روپ ختم ہو چکا تھا۔ بمشکل 40 برس کی عورت، اس وقت 60 کی لگ رہی تھی۔ وہ میرے گلے لگ کر رو دی۔ میں اس کو چپ کرانے کی کوشش میں خود بھی روتی چلی گئی ۔ بمشکل تمام اس کو خاموش کرا کے، اس کا ہاتھ تھام کر اسے تسلی دینے کی اپنی سی کوشش کرتے ہوئے میں نے اس سے پوچھاکہ " خدیجہ یہ سب کیسے ہوا؟ اس کی آنکھوں سے بہتا پانی اس کے کرب اور ذہنی انتشار کا اعلان کرتا ہوا مسلسل دوپٹے میں جذب ہو رہا تھا ۔اس نے اپنے آنسو صاف کئے اور یادوں کی پوٹلی کھولی:
کیسی بے فیض سی رہ جاتی ہے دل کی بستی
کیسے چپ چاپ چلے جاتے ہیں جانے والے
عبداللہ تقریباً ایک ماہ سے چپ چپ رہنے لگا تھا۔ہم ماں ،بیٹی لاؤنج میں ٹی وی دیکھتے تو وہ کمرے میں جا کر بیان سننے لگتا۔قبول اسلام کے بعد سے وہ رات کوتہجدکا اہتمام کرنے لگا تھا لیکن اب اس میں بہت کثرت آگئی تھی۔ ایک دن اس نے ہم سے بولاکہ ’’میں ہندوستان میں گھر کے قریب والے قبرستان کے لئے کچھ روپے بھیجنا چاہتا ہوں ۔وہ ابھی نیا بن رہا ہے ہمارے دفن کا بھی ادھر ہی انتظام ہو جائے گا۔‘‘ ہم اس کی بات سن کر ناراض ہوا کہ "ایسا بات مت بولو۔ " کچھ دن بعد بولا کہ ہم اپنے ماں باپ سے ملنے جانا چاہتا ہے ۔
ماں باپ کافر بھی ہو تو اس کا ادب واجب ہے ۔ہم ان کی خدمت کرنا چاہتے ہیں ۔بچوں کا اسکول کھلا ہوا تھا ہم نے کہا ٹھیک ہے ،تم چلے جاؤ۔ ہم رمضان کریم کے آخر میں اسکول بند ہوگا تو آ جائیں گے۔ رمضان مبارک شروع ہو چکا تھا۔ دوسرے روزے کو وہ ہندوستان روانہ ہو گیا۔ ساتویں روزے کو ہم کو کسی نے فون کر کے بتایا کہ عبداللہ اسپتال میں داخل ہے۔ اس کو پیٹ کاکینسر ہے اور بالکل آخری اسٹیج پر ہے۔ یہ خبر اتنی اچانک تھی کہ ہم کو یقین نہیں آیا۔ ہم عبداللہ سے پوچھا تو وہ بولا کہ تم فوری طور پر ہندوستان آجاؤ ،ہم دونوں بچیوں کو لے کر ہندوستان چلا گیا۔وہاں جا کر معلوم ہوا کہ آنے کے بعد عبداللہ کو پیٹ میں درد کی شکایت ہوئی ۔پہلے تو معمولی سمجھ کر نظر انداز کیا لیکن جب تکلیف بڑھی تو ڈاکٹر کو دکھایا۔ اس نے دوا دی لیکن آرام نہیں آیا تو پھر ٹیسٹ وغیرہ ہوا جس سے پتہ چلا کہ پیٹ کا کینسر ہے اوروہ بھی اپنی آخری اسٹیج پر ہے۔عبداللہ کے ماں باپ ہم کو بہت برا بھلا بولا کہ میرے بیٹے کونجانے کیا کچھ کر دیاجس کی وجہ سے یہ بیمار ہوا ہے۔ میرے ماں باپ کا رویہ بھی اچھا نہیں تھا ۔سب ہم دونوں کو بولتے کہ" اپنے پرانے مذہب پر واپس آجاؤ ،(معاذ اللہ)بھگوان سب ٹھیک کر دے گا ۔" وہ لوگ اور بھی بہت طریقے سے ہم دونوں کو قائل کرنے کی کوشش کرتے اور کہتے کہ تم نے بھگوان کو ناراض کیا ہے، اس لئے اس مصیبت میں گرفتار ہوئے ہو لیکن عبداللہ ان لوگوں کی ہر بات کو سختی سے رد کردیتا اور انہیں بتاتا کہ" دکھ ،بیماری ،شفا، سب اسی ایک اللہ کریم کے ہاتھ میں ہے۔ وہی ہمیں بیمار کرتا ہے اور وہی شفا دیتا ہے۔ اس کی مرضی اور علم کے بغیر درخت سے ایک پتہ بھی نہیں گرتا ۔عبداللہ نے انتقال سے 3 دن پہلے ہم سے پوچھاکہ رمضان کریم کی 27 ویں شب کب ہے؟ ہم بولاجمعہ کو تو وہ بولا "اچھا جمعہ کو تو ہم نہائیں گے۔ " اس دوران عبداللہ کو طبیعت کی زیادہ خرابی کے باعث آئی سی یو میںداخل کر دیا گیا ۔
جب درد زیادہ ہوتا تو اس پربے ہوشی طاری ہو جاتی تھی لیکن اس حال میں بھی وہ اپنی نمازیں لیٹے لیٹے ہی اشاروں سے پوری پڑھا کرتے تھے۔جمعرات 26 رمضان مبارک کو مغرب کی اذان سے پہلے ہم اسپتال گیا۔روزہ ہم اسپتال میں ہی کھولا۔ اس کو اس سال کے روزوں کے قضا ہو جانے کا بہت دکھ و افسوس تھا۔ ہم کو بولا" میرے روزوں کا فدیہ ضرور ادا کر دینا " پھر ہم سے بولا’’ہم کو اٹھا کر وضو کرادو ۔آج ہم نماز تمہارے سامنے پڑھیں گے اور اگر ہم درمیان میں سو جائیں تو ہم کو جگا دیناتاکہ نماز پوری کر لوں۔اپنا اور بچوں کا خیال رکھنا ، اسلام کسی قیمت پر نہیں چھوڑنا " یہ کہہ کرانہوں نے نماز کی نیت باندھ لی۔ ابھی سورۃ الفاتحہ ہی پڑھی تھی کہ غشی آگئی ۔
ہم نے ہلایا تو پھر نیت کی ۔ پڑھتے پڑھتے ہی چہرہ پرسکون ہوگیا اور ہم کو لگا کہ پھر سو گیا ہے ۔ہم نے اسے ہلایا تو کوئی جواب نہیں دیا۔ ہم بھاگ کر ڈاکٹر کو بلایا اس نے آ کر چیک کیا اور انتقال کی خبر دے دی۔ انتقال کی خبر سنتے ہی عبداللہ کے گھر والے آ کر میت لے گئے۔ انہوں نے یہ کہا کہ یہ ہندو تھا لہٰذا ہم اس کی چتا تیار کریں گے اور اس کو جلایا جائے گا۔ہم نے یہ سن کر بہت مخالفت کی اور کہا کہ یہ مسلمان ہے لیکن سسرال والے اور میرا بھائی سب نے مل کر ہم پر بہت تشدد کیا۔ میری ساس نے مجھے مارا پیٹا اور میری دونوں بیٹیوں سمیت مجھے کمرے میں بند کر کے تالا لگا دیا۔ باہر عبداللہ کی ارتھی تیار کی جا رہی تھی، ہم صرف اللہ کریم سے مدد مانگ رہے تھے کہ اچانک میری بیٹی نے مجھے موبائل دیا کہ یہ میرے پاس رہ گیا تھا۔ ہمارے ذہن میں خیال آیا کہ ہم کسی کو مدد کے لئے بلاتے ہیں۔ ہم نے قریبی مسجد کے امام صاحب جن کا نمبر ہم کو یاد تھا ان کو فون کیا اور سارا واقعہ بتا کر ان سے مدد چاہی۔ وہ کہنے لگے کہ ’’ بیٹی ہم سب تیار بیٹھے ہیں لیکن اگر ہم ایسے آگئے تو ہندو ،مسلم فساد ہو جائے گا ۔تم کو ہم ایک نمبر دے رہے ہیں، یہ پولیس کے ڈی ایس پی کا نمبر ہے۔ تم فون کرکے ان کو ساری صورتحال بتاؤ اور گھر آنے کے لئے بولو پھر پیچھے سے ہم سب آجائیں گے۔
" ہم نے اس نمبر پر فون کیا اور سب بتایا ۔وہ بولے ہم تھوڑی دیر میں پہنچتے ہیں۔ کچھ ہی لمحوں میں پولیس گھر آگئی۔ اس وقت تک عبداللہ کی چتا کو جلانے کی ساری تیاری مکمل ہو چکی تھی۔پولیس نے مجھے کمرے سے باہر نکالا ۔ہم نے باہر نکلتے ہی سب سے پہلے اپنے دوپٹے سے عبداللہ کے چہرے اور مانگ سے بندی اور مسہ صاف کیا ۔ اس وقت تک امام صاحب بھی مسلم لڑکوں کے ساتھ پہنچ گئے۔ ہم نے امام صاحب کو اشارہ کیا اور انہوں نے مسلم لڑکوں کے ساتھ میت کو اٹھا لیا اور تیزی سے لے کر مسجد روانہ ہو گئے۔ انہوں نے جلدی سے غسل اور کفن دے کر نماز جنازہ پڑھائی اور قریبی قبرستان میں تدفین کر دی ۔یہ وہ قبرستان نہیں تھا جہاں کیلئے عبداللہ نے پیسے دئیے تھے وہ تھوڑا فاصلے پر تھا اور اس وقت انتظار نہیں کیا جا سکتا تھا۔ جب تک پولیس وہیں موجود رہی۔
پولیس کے ڈر سے اس کے گھر والے بھی کچھ نہ بولے لیکن پولیس کے جاتے ہی خدیجہ کے سسرال والوں نے ظلم کی انتہا کر دی۔ اس کو مارا پیٹا اور بھوکا پیاسا 3 دن تک کمرے میں بند رکھا۔ چوتھے دن امام صاحب نے خیریت کے لئے فون کیا تو اس کی حالت سن کر بولے کہ " بیٹی آپ قطر واپس چلی جائیں۔ یہاں آپ کی جان کو خطرہ ہے ۔آپ اپنی عدت کے دن اب قطر میں ہی پورے کر لینا۔" خدیجہ کے پاس ریٹرن ٹکٹ اور پاسپورٹ موجود تھا۔ کسی طرح اس نے اپنی اور بچیوں کی سیٹ کنفرم کرا ئی اور واپس قطر آگئی۔ عبداللہ کے بھائیوں نے اس کو اس شرط پر جانے دیا کہ عبداللہ کے جو بھی روپے پیسے اور اس کے پاس سونا تھا، وہ ہندوستان میں ہی چھوڑکر جانا ہوگا۔ اس نے کہاکہ’’ میری دولت ،میرا سونا، میرا پیسہ تو عبداللہ تھا ۔جب وہ نہیں رہا تو ان چیزوں کو رکھ کر میںکیا کروں گی لیکن پھر بھی مجھے خوشی ہے کہ میری اصل دولت میرا ایمان سلامت ہے ،یہ وہ دولت ہے جو میں وہاں سے محفوظ لے کر آگئی ہوں۔‘‘
جب عشق حقیقی کی چنگاری شعلہ بنتی ہے تو ایسی ہی داستانیں جنم لیتی ہیں۔آج پردیس نے خدیجہ کو ماں کی طرح اپنی بانہوں میں سمیٹ لیا ہے ۔اس کی دو بچیاں ایک میٹرک اور دوسری انٹر کر رہی ہیں ۔خدیجہ کی آرزو ہے کہ اس کی بیٹیوں کی اچھے مسلمان گھرانوں میں شادیاں ہو جائیں تاکہ اس کو بھی پردیس میں محرم کا ساتھ مل جائے۔ برستی آنکھوں کے ساتھ یہ کہہ کر خدیجہ نے اپنی بات ختم کی کہ: ’’ اے رب العالمین !عبداللہ تیری امانت تھا تو نے واپس لے لیا۔مجھے کوئی گلہ نہیں ،میں تیری رضا میں راضی ہوں۔اے میرے اللہ کریم تو مجھے صبر جمیل عطا فرما۔ایمان پر ہمارے قدم جمائے رکھ ۔ میرے عبداللہ کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائیے ، آمین۔
------------------------------------------------------------------------------------------
محترم قارئین ! اردونیوز ویب سائٹ پر بیرون ملک مقیم پاکستانی،ہندوستانی اور بنگلہ دیشیوں کی کہانیوں کا سلسلہ شروع کیاگیا ہے۔اس کا مقصد بیرون ملک جاکر بسنے والے ہم وطنوں کے مسائل کے ساتھ ان کی اپنے ملک اور خاندان کیلئے قربانیوں کو اجاگر کرنا ہے۔،آپ اپنے تجربات ،حقائق،واقعات اور احساسات ہمیں بتائیں ،ہم دنیا کو بتائیں گے،ہم بتائیں گے کہ آپ نے کتنی قربانی دی ہے ۔اگر آپ یہ چاہتے ہیںکہ آپ کا نام شائع نہ ہو تو ہم نام تبدیل کردینگے،مگر آپ کی کہانی سچی ہونے چا ہیے۔ہمیں اپنے پیغامات بھیجیں ۔۔اگر آپ کو اردو کمپوزنگ آتی ہے جس کے لئے ایم ایس ورڈ اور ان پیج سوفٹ ویئر پر کام کیاجاسکتا ہے کمپوز کرکے بھیجیں ،یا پھر ہاتھ سے لکھے کاغذ کو اسکین کرکے ہمیں اس دیئے گئے ای میل پر بھیج دیں جبکہ اگر آپ چاہیں تو ہم آپ سے بذریعہ اسکائپ ،فیس بک (ویڈیو)،ایمو یا لائن پر بھی انٹرویو کرسکتے ہیں۔۔ ہم سے - -فون نمبر - -0966122836200 ext: 3428پر بھی رابطہ کیاجاسکتا ہے۔
آپ کی کہانی اردو نیوز کیلئے باعث افتخار ہوگی۔۔
ای میل- -:[email protected]- -