Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شلمانی قومی موومنٹ ہماری ضرورت ہے، محب گل شلمانی

پختون قبائل خوش ہیں اور ہمارا ساتھ دے رہے ہیں، تنظیمی ڈھانچہ مکمل ہو چکا ہے ، صوبے کے 24 اضلاع میں تنظیم مکمل ہو چکی ہے

 
محب گل شلمانی پاکستانی کمیونٹی کی ہر دلعزیز شخصیت بھی ہیں اور سیاسی بصیرت رکھنے والے انسان بھی۔ حال ہی میں انہوں نے شلمانی قومی موومنٹ کے نام سے ایک نئی سیاسی جماعت کا بھی آغاز کیا ہے۔ اس حوالے سے اردو نیوز کے نمائندہ خصوصی ذکاء اللہ محسن نے ان کا انٹرویو کیا ۔آئیے ان سے ان کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر مبنی سوالات کے جوابات دیکھتے ہیں: 
 
* آپ کی پہچان تو ایک سوشل ورکر کی ہے پھر یہ سیاسی پارٹی بنانے کا خیال کیسے آ یا؟ 
۔  اس میں کوئی شک نہیں کہ مجھے ہمیشہ ایک سوشل ورکر کی حیثیت سے ہی جانا گیا ہے مگر میں بہت پہلے سے سیاست سے وابستہ رہا ہوں ۔خیبر پختونخوا کی ایک سیاسی پارٹی کا کارکن بھی رہا ہوں مگر جب میں نے دیکھا کہ خیبر پختونخوا کے اندر تمام سیاسی پارٹیاں لوگوں سے کئے ہوئے وعدے پورے نہیں کرتیں تو میں نے ایک نئی سیاسی جماعت بنانے کا فیصلہ کیا ۔اس کے علاوہ اب دیکھنے میں یہ بھی بات آ رہی ہے کہ زیادہ تر سیاسی پارٹیاں قوم پرست بن رہی ہیں اور جو سیاسی جماعتیں اب بھی چاہے برسراقتدار ہیں یا اپوزیشن میں ہیں ،وہ بھی موروثی لیڈرشپ کے اعتبار سے قوم پرستی کی ایک شکل ہیں تو اس لئے میں نے خیبر پختونخوا میں شلمانی قبیلے کو اکٹھا کیا اور ان کے نام سے ایک سیاسی جماعت بنائی ہے جو تمام پختونوں کی نمائندگی بھی کرتی ہے۔

 

*  شلمانی قبیلے کی تاریخ پر کچھ روشنی ڈالیں اور یہ بھی بتائیں کہ کیا اس سے قبل بھی شلمانی سیاست میں رہے ؟ 
۔  شلمانی قبیلہ ہمیشہ سے سیاست میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا رہا ہے۔قیام پاکستان سے قبل شلمانی قبیلے نے خیبر پختونخوا پر حکومت کی تھی۔ شلمانی قبیلے کی جانب سے پاکستان کے قیام کے لئے بھرپور جدوجہد بھی کی گئی جس کا اعتراف 1948 میں بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے بھی کیا۔ انہوں نے اس وقت کے صوبہ سرحدکا جب دورہ کیا تو آفریدی، شنواری اور شلمانی قبائل کے تعاون اور ان کی جدوجہد کو خوب سراہا۔ اس کے بعد لنڈی کوتل میں ہمارے آباو اجداد کا بطور تحریک آزادی کے لیڈرکا مجسمہ بھی بنایا گیا۔ اس لئے اب ہم نے دوبارہ اسی سوچ کے ساتھ شلمانی قومی موومنٹ کا قیام کیا ہے کہ اپنے علاقے کو ترقی یافتہ بنایا جائے۔

 

*  شلمانی قومی موومنٹ کو وجود میں آئے ہوئے ابھی تقریباً ایک سال بھی مکمل نہیں ہوا ۔کیا آپ نے تنظیمی ڈھانچہ تیار کر لیا ہے اور بطور پارٹی چیرمین ،کیا آپ سمجھتے ہیں کہ شلمانی قبیلے کے دیگر عمائدین تعاون کریں گے؟
۔  ہمارے قبیلے کے تمام افراد نہ صرف اس اقدام سے خوش ہوئے ہیں بلکہ ان کو ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا ہو گیا ہے جہاں وہ متحد رہیں گے۔ صرف یہی نہیں باقی پختون قبائل بھی خوش ہیں اور ہمارا ساتھ دے رہے ہیں۔ تنظیمی ڈھانچہ مکمل ہو چکا ہے اور صوبے کے 24 اضلاع میں مکمل تنظیم سازی عمل میں لائی جا چکی ہے جو ضلعے سے لیکر نیچے یونین کونسل کی سطح پر مکمل ہو چکی ہے۔

 

*  2018 کے الیکشن کی آمد آمد ہے، آپ کی کیا تیاری ہے؟ 
۔  ہماری تیاری مکمل ہے۔ ہم ان شاء اللہ 4 نیشنل اسمبلی اور 12صوبائی اسمبلیوں پر الیکشن لڑنے کے لئے لائحہ عمل تیار کر چکے ہیں۔ اس کے لئے امیدواروں کا چناؤبھی کسی حد تک مکمل کر لیا گیا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ ہم نمایاں کامیابی حاصل کریں گے۔ 

 

*  خیبر پختونخوا میں جو تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کی حکومت ہے ،اس کی کارکردگی سے آپ کتنا مطمئن ہیں؟ 
۔  آپ صرف اس بات سے اندازہ لگا لیں کہ گزشتہ 4 سالوں کے دوران کوئی ایک میگا پروجیکٹ نہیں بن پایا تو ان کی کارکردگی سے کیسے مطمئن ہوا جا سکتا ہے۔ جو پارٹی صرف دھرنے دینے کی ماہر ہو وہ عوامی مسائل کو کیسے حل کر سکتی ہے۔ اصل میں پی ٹی آئی سوشل میڈیا کی کامیاب پارٹی ہے جہاں پر روزانہ سینکڑوں کی تعداد میں پوسٹیں لگا کر خیبر پختونخوا کو جنت کا ایک حصہ دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ پی ٹی آئی نے جو ادارہ احتساب کے نام پر بنایا تھا، اس کو بند ہوئے عرصہ گزر گیا ہے جس سے کرپشن کی کھلی چھوٹ مل چکی ہے۔ صوبائی ممبران اسمبلی جو مرضی کرتے رہیں، ان کا احتساب ممکن نہیں۔ آج بھی خیبر پختونخوا کے اضلاح میں ہسپتالوں اور اسکولوں کی ابتر حالت ہے بلکہ کئی ایسے علاقے ہیں جہاں بنیادی سہولیات سرے سے ہی موجود نہیں ۔ پولیس گردی سیاسی چھاؤں میں اپنے عروج پر ہے۔ اس لئے اس طرح کی حکومت کو آئیڈیل کبھی تصور نہیں کیا جا سکتا۔

 

*نیشنل لیول پر کیا دیکھتے ہیں، مسلم لیگ نون کی حکومت مسائل کو حل کرنے میں کامیاب ہوئی ہے؟  
۔  لوگوں کو بنیادی مسائل کا سامنا ہے۔ صحت ،تعلیم، روزگار، صاف پانی، مہنگائی ہے مگر وفاقی حکومت کی ان کی جانب توجہ ہی نہیں۔ یہ بھی چاہئے تھا کہ وفاقی حکومت خیبر پختونخوا میں اپنے پروجیکٹ لگاتی مگر اس نے بھی اس اہم صوبے کو نظر انداز کرکے احساس محرومی کو تقویت بخشی ہے۔
 
*  آپ ہمیشہ فاٹا کو کے پی کے میں ضم کرنے کی بات کرتے ہیں ،کیوں؟  
۔  فاٹا زیادہ تر مختلف ایجنسیوں پر مشتمل علاقہ ہے جو تمام تر بنیادی سہولیات سے محروم ہے اور یہاں ایف سی آر کا کالا قانون ابھی تک رائج ہے۔ دنیا ترقی کی جانب گامزن ہے مگر فاٹا کے عوام پستی کی جانب جا رہے ہیں۔ اس لئے فاٹا کو صوبے میں ضم کرنا ضروری ہے تاکہ ان علاقوں میں بھی ترقی کادور دورہ ہو اور یہاں پر یہ بات بھی بڑی اہم ہے کہ مرکزی حکومت کو چاہئے کہ فاٹا کے ایسے علاقے جو اب امن کا گہوارہ بن چکے ہیں، ان کو ازسر نو دوبارہ بنایا جائے تاکہ یہاں کے لوگ اچھی زندگی گزار سکیں۔
 
*  اپنا کوئی پیغام دینا چاہیں؟  
۔  ہم4 بھائی ہیں، ہمیں متحد ہو کر رہنا ہے۔ اسی میں ہماری بقا بھی ہے اور اسی میں ترقی کے تمام راز پوشیدہ ہیں۔ہم دنیا کے مقابلے میں بہت پیچھے رہ چکے ہیں۔ اس لئے اب آگے بڑھنا ہے اور یہ تبھی ممکن ہوگا جب ہم ملکر ترقی کا پہیہ گھمائیں گے۔ سی پیک جیسے عظیم منصوبے ملک کی زینت بن رہے ہیں ۔ان سے اب فائدہ اٹھانا ہمارا کام ہے۔ مثبت سوچ سے ترقی کا سفر آسان ہو گا۔ چاروں بھائیوں کو ایک جان ہو کر ان منصوبوں کی تکمیل کرنا ہوگی۔ اب وہ دور نہیں جب پاکستان ترقی کرے گا ۔ اللہ نے ہمیں ہر طرح کی نعمت سے نواز رکھا ہے۔ بس ہمیں اچھی سوچ، باہمی بھائی چارے کی فضا بنائے رکھنا چاہئے۔بالکل اسی طرح جیسے ہم اہل ریاض ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں ایک دوسرے کے ساتھ ہوتے ہیں ۔
 
 

شیئر: