Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تارکِ نماز کافر ہے یا محض فاسق؟

قائلینِ فسق کے پاس کوئی صحیح دلیل ہے ہی نہیں یاپھر وہ دلیل کسی ایسے وصف سے وابستہ ہے جس میں ترکِ نماز کاکوئی امکان ہی نہیں ہو سکتا

 

محمد منیر قمر۔ الخبر

اس موضوع پر گزشتہ شماروں سے بحث جاری ہے، فریقین کے مزید دلائل اور ان کا تجزیہ ملاحظہ فرمائیں

فاسق کہنے وا لے اہلِ علم اُن احادیث کی تاویل کرتے ہیں جن میں واضح طور پر تارکِ نماز کے لئے’’ کفر ‘‘کالفظ آیا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ ایسی احادیث میں کفر سے مراد کفرانِ نعمت ہے یاپھر علامہ مجد الدین ابن تیمیہؒکے بقول اس سے مراد یہ نہیں کہ وہ کافر ہوگیا یااس نے کفر کیا بلکہ اس سے مراد ہے کہ وہ کفر کے قریب پہنچ گیا۔ (منتقیٰ)اس تاویل کی تائید کے لئے انہوں نے متعدداحادیث بھی نقل کی ہیں جن میں کفرکالفظ وار ہوا ہے ۔ چند احادیث کا ذکر گزشتہ شمارے میں کیا گیا تھا، اب مزید احادیث کا ذکر کیا جارہا ہے جن میں کفر کا لفظ وارد ہوا ہے سنن ابی داؤد و ترمذی ،ابن ماجہ و دار می اور مسند احمد میں ارشادِ نبوی ہے

نسب (بیٹاماننے )سے انکار کرنا: چاہے وہ کس قد ر دقیق ہی کیوں نہ ہو، ایمان لے آنے کے بعد کفر ہے ۔ ابو داؤد ،ترمذی، ابن ماجہ ، دار می اور مسند احمدمیں ارشادِ نبوی ہے

جس نے اپنی بیو ی سے دبرمیں جماع کیا اس نے شریعتِ محمد ی سے کفر کیا۔

ابو داؤد ،ترمذی ، صحیح ابن حبان،مستدرک حاکم اور مسند احمد میں ارشادِ نبوی ہے

جس نے کسی غیر اللہ کی قسم کھا ئی اس نے کفر کیا یا شرک کیا ۔

اِن اور ایسی ہی دیگر احادیث سے استدلال کر تے ہو ئے اُن احادیث کی تاویل کی جاتی ہے کہ جیسے اِن میں کفر سے مراد کفرِ اکبر نہیں ،ایسے ہی نماز کے تارکین سے متعلقہ احادیث میں بھی کفر سے مراد کفر انِ نعمت یا کفر کے قریب ہو نا مراد ہے لہذا تارکِ نماز کافر نہیں بلکہ فاسق ہے۔

اس کے علا وہ وہ لوگ جو تارکِ نماز کے عدمِ کفر کے قائل ہیں، وہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم نے زانی ،چور ، ڈاکو اور شرابی و خائن سے ایمان کی نفی کی ہے جیساکہ صحیح بخاری ومسلم ، نسائی ، ابن ماجہ اور مسنداحمد میں حضرت ابو ہریرہ ؓسے مروی ارشادِ نبوی ہے کوئی جب زناکرتا ہے تووہ بوقتِ زنامومن نہیں رہتا اور کوئی شرابی شراب پیتے وقت مومن نہیں رہتا اور جب کوئی چور ی کرتا ہے تو وہ اس وقت مومن نہیں رہتا اور کوئی ڈاکوجب ڈاکہ ڈالتا ہے اور لوگ اس کی طرف نگاہیں اٹھاکر دیکھتے ہیں تووہ اس وقت مومن نہیں رہتا۔ صحیح مسلم ومسند احمد میں یہ الفاظ بھی ہیں

اور تم میں سے جب کوئی شخص مالِ غنیمت میں خیانت کر تا ہے تووہ اس وقت مومن نہیں رہتا لہذا خبر دار رہو ، بچ کررہو ۔ صحیح بخاری ونسائی اور مسند احمد میں حضرت ابن عباسؓ سے مروی ایک حدیث ہے جس میں اسی حدیث کی طرح زانی ،چور اور شرابی کاتذکرہ ہے اور ڈاکو کا ذکر نہیں بلکہ اس کے بجا ئے قاتل سے نفی ٔ ایمان پر دلالت کرنے والے یہ الفاظ ہیں

اور کوئی بندہ جب قتل کاارتکاب کر تا ہے تووہ اس وقت مومن نہیں رہتا۔

ایسے ہی صحیح بخاری،مسلم اور سنن ثلاثہ یعنی ابو داؤد وترمذی اور نسائی میں حضرت ابو ہریرہؓسے اور مصنف ابن ابی شیبہ میں حضرت عائشہ ؓ اور ابن ابی اوفیٰؓ سے مروی ارشادِ نبوی ہے جس میں زانی ، چور اور شرابی سے ارتکابِ جرم کے وقت ایمان کی نفی کی گئی ہے اور اس حدیث کے آخرمیں یہ الفاظ بھی ہیں

توبہ کادروازہ اس کے بعد بھی کھلاہے ۔

عدمِ کفر کے قائلین کا کہنا ہے کہ ان جرائم کاارتکاب کر نے سے ایمان کا نام زائل ہو جانے کے باوجود ان لوگوں پر کفرِ انکار (کفرِ اکبر)واجب نہیں کیا گیا اور نہ ہی ان کے ہمیشہ کیلئے جہنمی ہو نے کو ضروری قرار دیا گیاہے ۔ ایسے ہی تارکِ نماز کا کفر کفرِ اکبر (یاکفرِ انکار)نہیں اور نہ ہی اس کایہ جرم ہمیشہ کے لئے اس کے جہنمی ہو نے کاموجب ہے ۔ اس پر مستزاد یہ کہ امانت کی ادا ئیگی نہ کر نے بلکہ اس میں خیانت کر نے والے شخص سے بھی ایمان کی نفی کی گئی ہے ۔

عہد شکنی و وعدہ خلافی کر نے والے سے دین کی ہی نفی کر دی گئی ہے جیسا کہ مسند احمد ، سنن بیہقی وشعب الایمان اور الاحادیث المختارۃ للضیاء میں حضرت انسؓسے مروی ارشادِنبوی ہے اس شخص کا کوئی ایمان نہیں جوامانت دار نہیں اور اس شخص کا کوئی دین نہیں جوعہد ووعدہ کا پاس نہیں رکھتا۔

اِس حدیث میں ان کے ایمان اور دین کی نفی کی گئی ہے لیکن ترکِ اما نتداری اور عہد شکنی کر نا، یہ افعال ایسے کفر کاموجب تونہیں جوکہ انہیں ملتِ اسلامیہ سے ہی نکال باہرکریں ۔ خصوصاً بعض صحابہ وتابعین اور ائمہ کے ایسے اقوال بھی ملتے ہیں کہ انہوں نے کفر سے کفرِ اکبر مراد نہیں لیا جوکہ آدمی کودین اسلام سے ہی خارج کر دے بلکہ اس سے ادنیٰ درجے کاکفر مراد لیا ہے ۔ چنانچہ سورہ المائدۃ کی آیت 44میں جو ارشادِ الہٰی ہے

اور جولوگ اللہ کے نازل کردہ آسمانی قانون کے مطابق فیصلہ نہیں کر تے وہ کافر ہیں ۔

اِس آیت میں واردکفر کے متعلق حضرت ابن عباسؓ فرما تے ہیں کہ اس سے مراد وہ کفر (اکبر) نہیں جوتم سمجھتے ہو چنانچہ امام طاؤوسؒ بیان کر تے ہیں کہ حضرت ابن عباس ؓ سے جب اس آیت کی تفسیر پو چھی گئی توانہوں نے فرمایا

اس کایہ فعل توکفر ہے لیکن یہ کفر اس شخص کے کفر جیسا نہیں جو اللہ ، اس کے فرشتوں، کتا بوں اور رسولوں کا انکار وکفر کرتا ہے ۔ ترجمان القرآن میں حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کاہی یہ بھی کہناہے

وہ کفر ایسا نہیں کہ جواسے امتِ اسلامیہ سے ہی خارج کردے ۔

حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کی یہ تفسیر مستدرک حاکم میں مروی ہے جسے امام حاکم نے صحیح قرارد یا ہے اور علامہ ذہبی نے ان کی تصحیح پر موافقت کی ہے جبکہ سفیانؒ، ابن جریج ؒکے حوالہ سے امام عطاء ؒ کاقول بیان کر تے ہیں کفرِ اکبر سے ادنیٰ در جے کاکفر ،ظلمِ عظیم سے ادنیٰ درجے کاظلم اور فسقِ کبیر سے ادنیٰ درجے کافسق۔ کفر کی یہ تاویل توواضح ہوگئی ۔

اس تاویل کے سلسلہ میں بعض کبارعلماء کے تحقیقی فرمودات اور جائزہ کچھ اس طرح ہے کہ صاحبِ نیل الاوطار نے المنتقیٰ لابی البرکات المجد اور الصلوٰۃ لابن القیم میں وارد شدہ ایسی احادیث کے ساتھ بعض دیگر احادیث کااضافہ بھی کیا اور لکھا ہے

المنتقیٰ کے مصنف المجد ابن تیمیہؓنے اس تاویل کی تائید میں جویہ احادیث وارد کی ہیں توان میں مذکور کفر کے بارے میں بھی اسی طرح نزاع پایاجاتاہے جس طرح کہ تارکِ نماز پر کفر کے اطلاق میں پایاجاتاہے جبکہ تاویل کی اس تنگ وادی میں قدم رکھنے کاسبب دراصل وہ وہم ہے جس کی رو سے کفر اور عدمِ مغفرت کو لازم وملز وم قرار دے لیا گیا ہے،یعنی جس پر کفر کالفظ آگیا، اس کی بخشش نہیں ہوگی۔

اس وہم کو ایک قاعدہ کلیہ بنالیا گیا ہے حالانکہ یہ کوئی قاعدہ کلیہ نہیں اور اِس قاعدے کلیہ کی نفی کثیر احادیث میں وارد لفظِ کفر کی تاویلات کے جھنجٹ میں پڑ نے سے بچالیتی ہے۔ اور آگے فرماتے ہیں جسے نبی اکرم نے کافر کانام دیاہم بھی اسے کافر کہتے ہیں اور اس سے زیادہ نہ کچھ کہتے ہیں اورنہ ہی تاویل کر تے ہیں کیو نکہ اس کی کوئی ضرورت ہی نہیں۔نیل الاوطار بعض اہلِ علم نے تارکِ نماز کے کفر پر دلالت کر نے والی احادیث میں واردکلمہ ’’الکفر‘‘اور ان دوسری احادیث میںوارد کلمہ ’’کفر‘‘میں فرق کیا ہے ۔

ان کا کہنا ہے الالف لام معرفہ کے ساتھ الکفر سے مراد حقیقی کفر ہے اور نکرہ کے صیغہ کفر سے مرادیہ ہے کہ یہ کام کفر کے کاموں میںسے ہیں یاان میں سے کسی کے ارتکاب سے کفر کاصدور ہو امگر کافر نہیں ہو اجو کہ دائرۂ اِسلام سے خارج ہو جائے اس طرح بھی فرق کیا گیا ہے ۔ امام ابن تیمیہ ؒنے اپنی کتاب اقتضاء الصراط المستقیم میں اس موضوع پر خوب بحث کی ہے۔ اب تارک نماز کے کفر یا فسق پرسابقہ تمام دلائل پر طائرانہ نظرڈالتے ہیں اور اوراُن کی اقسام معلوم کرتے ہیں۔

(مکمل مضمون روشنی 11نومبر کے شمارے میں ملاحظہ کریں)

شیئر: