Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سیاسی معرکوں کا فیصلہ عوام کرتے ہیں

 
عمران خان کی تنہا پرواز کی خواہش آئندہ الیکشن میں وسیع البنیاد اشتراک کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے
 
ارشادمحمود
 
عمران خان کی تحریک انصاف کے ساتھ سپریم کورٹ میں جو سلوک ہورہاہے اسے دیکھ کر یہ یقین مزید پختہ ہوگیاہے کہ سیاسی معرکوں کا فیصلہ عدالت کے کٹہرے میں نہیں‘گلیوں اورمحلوں میں ہوتاہے۔لگ بھگ 17ماہ بعد اس ملک میں الیکشن کا دنگل برپا ہوگا۔ شہریوں نے فیصلہ کرنا ہے کہ وہ اگلے5 برسوں کےلئے اقتدار کا ہما نوازشریف کے سر پررکھتے ہیں یا پھر عمران خان یا بلاول بھٹو زرداری کو وزارت عظمی کی گدی پر فائز کرتے ہیں۔گزشتہ چند دنوں سے جس رخ پر عدالت عظمی میں پاناما لیکس پر بحث ومباحثہ ہورہا ہے وہ اس امر کی غمازی کرتاہے کہ عدالت سیاسی لڑائی کےلئے مناسب فورم نہیں۔وائٹ کالر جرائم کی تحقیق اور تفتیش ایک پیچیدہ عمل ہے جو سپریم کورٹ کے ججوں کے بس میں نہیں۔عدالت کوئی تحقیقی ادارہ ہے اور نہ ہی ججوں کی یہ تربیت ہوتی ہے کہ وہ جرائم کو پکڑسکیں۔ان کے سامنے مقدمہ پیش ہوتاہے جس کا وہ آئین اور قانون کے دائرے میں جائزہ لیتے ہیں۔وکلاء کے دلائل سنتے ہیں۔شواہد ملاحظہ کرتے ہیں اورفیصلہ صادر فرماتے ہیں۔
تحریک انصاف نے گزشتہ چند برسوں میں متعدد مرتبہ سیاسی امور پرعدالتی معرکہ آرائیاں کیں لیکن کچھ حاصل نہ ہوا۔ظاہر ہے کہ تحریک انصاف ایک سیاسی جماعت ہے جس کے پاس انتظامی طاقت ہے اور نہ ریاستی وسائل۔وہ مختلف ایشوز پر ایک سیاسی پوزیشن لے لیتی ہے جو کہ اس کا حق ہے لیکن اسے آئین اور قانون کے پیرہن میں ڈالنا اور پھر ججوں کے سامنے شواہد پیش کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔آصف علی زرداری کی کرپشن ثابت کرنے کیلئے نوازشریف حکومت اوربعد ازاں جنرل پرویز مشرف کی سرکار نے کروڑوں روپے صرف کیے۔ نتیجہ ڈھاک کے وہی تین پات۔زرداری صاحب جیل سے نکلے اور نیویارک سدھار گئے۔ وہاں سے لوٹے توقصر صدارت میں ڈیرہ جمایا یعنی مسلح افواج کے کمانڈرانچیف بن گئے۔کہاں گئی کرپشن کی عجب کہانیاں۔
بطور سیاسی جماعت کے تحریک انصاف کو اگلا ڈیڑھ برس عدالتوں اور دھرنوں میں ضائع کرنے کے بجائے اپنی تنظم سازی اور سیاسی جوڑتوڑپر صرف کرنا چاہیے۔ہرانتخابی حلقے میں مضبوط امیدوار کی تلاش اور پھر اس کی تراش خراش بھی کرنا ہوگی۔تحریک انصاف کے اکثر امیدوار ہوا میں زیادہ رہتے ہیں اور کم ہی رائے عامہ کو اپنے حق میں ہموار کرنے پر توجہ دیتے ہیں۔وہ عمران خان کی شخصی مقبولیت کو اپنی سیاسی طاقت میں بدل نہیں پاتے۔
سیاست کا اصل معرکہ پنجاب میں برپا ہونا ہے جہاں نون لیگ ایک مضبوط قوت ہے۔ شہروں میں اس کی گرفت موثر ہے۔ دیہی پنجاب میں اس کے پاس مضبوط اور موثر امیدوار ہیں جو اپنی نشست کو محفوظ بنانے کےلئے سردھڑ کی بازی لگاتے ہیں۔روپیہ پانی کی طرح بہاتے ہیں۔ ذات برادری ہی نہیں فرقہ وارانہ تقسیم کو بھی اپنے حق میں استعمال کرتے ہیں۔
یہ بھی پیش نظر رہے کہ اگلے کچھ عشروں تک پاکستان میں مخلوط حکومتیں ہی قائم ہوتی نظر آتی ہیں۔مثال کے طور پرتمام تر خرابیوں کے باوصف سندھ میں پیپلزپارٹی کو نون لیگ یا تحریک انصاف کوئی بڑا چیلنج دیتی نظر نہیں آتیں۔ کراچی میں بھی پیپلزپارٹی کی پوزیشن پہلے کے مقابلے میں بہتر ہوسکتی ہے کیونکہ ایم کیوایم دھڑوں میں بٹ گئی ہے۔ممکن ہے کہ اگلے چند ماہ میں باہم دست وگریباں بھی ہوجائے۔ اس طرح ان کی طاقت باہمی لڑائیوں اور ریاستی اداروں کے ساتھ چپقلش میں ضائع ہونے کا امکان ہے۔اس صورت حال سے پیپلزپارٹی فائدہ اٹھانے کی پوزیشن میں ہے کیونکہ کراچی اور حیدرآباد میں کوئی دوسرا متبادل دستیاب نہیں۔بسااوقات ایسا لگتاہے کہ نون لیگ نے تہیہ کیا ہوا ہے کہ وہ سندھ میں اپنی پارٹی کی نہ تو تنظیم سازی کرے گی اور نہ ہی عام الیکشن میں کامیابی کی کوئی ٹھوس منصوبہ بندی۔ نون لیگ کے رواں دور حکومت میں سندھ میں لیگ کو بطور جماعت منظم کرنے پر رتی بھر توجہ نہیں دی گئی۔چنانچہ سندھ پیپلزپارٹی اورایم کیوایم ہی کے پاس جاتا نظر آتاہے۔
خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف مقبول جماعت ہے اور بقول وزیراعلی پرویز خٹک کے پختون تحریک انصاف ہیں اور تحریک انصاف پختون ہے۔ پختونوں کی ایک بھاری اکثریت عمران خان کو پسند کرتی ہے اوروہ تحریک انصاف کو اونرشپ دیتی ہے۔ اگرچہ مولانا فضل الرحمان، عوامی نیشنل پارٹی اور نون لیگ مشترکہ طور پر تحریک انصاف کے خلاف الیکشن میں اتریں گے لیکن اس کے باوجود کے پی کے میں تحریک انصاف ان سے بہتر کارکردگی دکھانے کی پوزیشن میں نظر آتی ہے کیونکہ رواں دور حکومت میں کے پی کے عام شہری زیادہ اطمینان محسوس کرتے ہیں۔تحریک انصاف کی خوش قسمتی ہے کہ اس کے دور حکومت میں فوج نے امن وامان بحال کرنے کے لیے فیصلہ کن کردار ادا کیا اور گراں قدر قربانیاں دے کر نہ صرف کے پی کے بلکہ پورے میں امن بحال کردیا۔جس سے ملکی ترقی کا پہیہ رواں دواں ہوگیا۔اس کا فائدہ تحریک انصاف کی حکومت اور صوبے کے عوام کو بھی ملا۔
اصل الیکشن پنجاب میں ہونا ہے جہاں تحریک انصاف کا شوروغوغا بہت ہے لیکن وہ اپنی توانائی اور وسائل انتخابی سیاست پر لگانے کے بجائے ان ایشوز پر صرف کررہی ہے جو انتخابی سیاست میں زیادہ اہمیت نہیں رکھتے۔تلخ حقیقت یہ ہے کہ ہم ایک ایسے ملک میں بستے ہیں جہاں لوگ جیل میں بیٹھ کر الیکشن جیت جاتے ہیں۔سنگین جرائم اور بدعنوانیوں میں ملوث ہونے کے باوجود لوگ قومی اسمبلی اورسینیٹ میں تشریف فرماہیں۔منتخب ارکان صوبائی اسمبلی سرعام سینیٹ کیلئے ووٹ فروخت کردیتے ہیں۔سیاسی پارٹیوں کے اندر مافیاز چھائے ہوئے ہیں۔پارٹیاں الیکشن میں ٹکٹ فروخت کرتی ہیں۔اکثر یہ خیال آتاہے کہ اس نظام کی اصلاح کے لیے عمر خضراور صبر ایوب چاہیے۔ 
پنجاب نون لیگ کی کامیابی کی بنیادفراہم کرتا ہے اگر تحریک انصاف دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ اشتراک کے ساتھ اس صوبہ میں کوئی انتخابی اتحاد قائم کرسکے تو پھر نون لیگ کے پاوں تلے مٹی کھسک سکتی ہے۔پنجاب میں بے شمار چھوٹی چھوٹی سیاسی جماعتیں اور شخصیات ایسی ہیں جو اپنے اپنے علاقوں میں زبردست اثر ورسوخ کی حامل ہیں۔ان قوتوں کو ایک لڑی میں پرویاجائے تو پھر جاکر(ن) لیگ کے مقابل کوئی صف بندی کی جاسکتی ہے۔عمران خان کی تنہا پرواز کی خواہش اور کوشش اس وسیع البنیاد اشتراک کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔
 پیش نظر رہے کہ ریلیوں، جلسوں اورعدالتی جنگوں سے تحریک انصاف ٹی وی ٹاک شوز اور خبرناموں کی زینت تو بنی رہی گی لیکن منزل نہ حاصل کرسکے گی لہذا مقررعرض ہے کہ عدالتوں میں جاری مقدمہ بازی کو ایک طرف رکھ کر عوام میں نکلیں۔پارٹی کو منظم کریں۔ عام لوگوں کے ساتھ راہ ورسم استوارکریں۔ بنی گالہ میں قلعہ بند ہونے اور ٹی وی چینلز پر چہچانے سے کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مثال ہمارے سامنے ہے جسے میڈیا اور معاشرے کے فعال طبقات نے مسترد کردیاتھا لیکن عوام کی طاقت نے اسے امریکہ کا صدر بنادیا۔
******

شیئر: