Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عمرہ فیس، ابہام کیوں ہے؟

فیصلے سے پہلے جس نے زندگی میں کبھی عمرہ کیا اس کا وہ عمرہ پہلا شمار ہوگا یا فیصلے کے نفاذ کے بعد آنے والے کا عمرہ پہلا ہوگا

 

عبد الستارخان

کسی تمہید کے بغیر اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔ پہلی مرتبہ سعودی حکومت نے حج اور عمرہ پر آنے والوں پر 2ہزار ریال فیس عائد کی ہے۔اس فیصلے کے کیا مثبت اور منفی پہلو ہیں اس پر بات کرنا قبل از وقت ہے۔ ابھی عمرہ موسم کو شروع ہوئے ایک ماہ بھی مکمل نہیں ہوا۔ اس فیصلے کے مابعد اثرات کا صحیح تجزیہ 2ماہ بعدہی ممکن ہوسکے گا۔ اس وقت جو بات پوری دنیا میں نہ صرف باعث تشویش ہے بلکہ افواہوںکا مرکزی موضوع بھی ہے ، وہ ہے عمرہ فیس اور اس کے اطلاق ونفاذ کا طریقہ کار۔ وزارت حج وعمرہ کی خاموشی کے باعث یہ معاملہ مزید گمبھیر ہوتا جار ہاہے۔

چند سوالات ایسے ہیں جن کے جوابات وزارت حج وعمرہ کے ذمہ ہیں۔ ان سوالات کے جوابات دینے میں جتنی تاخیر ہورہی ہے اتنا ہی یہ مسئلہ مزید پیچیدہ ہوتا جا رہا ہے۔ سعودی کابینہ نے فیصلہ کیا ہے کہ حج وعمرہ پر آنے والوں سے 2ہزار ریال انٹری فیس لی جائے گی۔یہ فیصلہ گزشتہ حج کے دنوں سے پہلے کیا گیا تھا اور اس وقت واضح طور پر کہا گیا تھا کہ پہلی مرتبہ حج پر آنے والو ں سے2ہزار ریال انٹری فیس حکومت کے ذمہ ہوگی جبکہ دوسری مرتبہ حج پر آنے والوں سے یہ فیس وصول کی جائے گی۔ اسی طرح عمرہ ویزے پر آنے والو ں سے 2ہزارریال انٹری فیس لی جائے گی تاہم پہلی مرتبہ عمرہ پر آنے والے فیس سے مستثنیٰ ہوں گے۔ کابینہ کا کام فیصلہ کرنا ہے سو اس نے فیصلہ کیا البتہ فیصلے کی شریح اور تعبیر ان اداروں کا کام ہے جو فیصلوں کے نفاذ کے ذمہ دار ہیں مگر افسوس کہ عمرہ موسم شروع ہونے تک چند چیزیں واضح نہیں جن کی وجہ سے ابہام پیدا ہوگیاہے۔ پہلی مرتبہ عمرہ پر آنے والوں سے فیس نہیں لی جائے گی، اس سے کیا مراد ہے۔

کیا فیصلے سے پہلے جس نے زندگی میں کبھی عمرہ کیا اس کا وہ عمرہ پہلا شمار ہوگا یا فیصلے کے نفاذ کے بعد آنے والے کا عمرہ پہلا ہوگا۔ فرض کرلیا جائے کہ فیصلے سے پہلے کئے گئے عمرے شمار نہیں ہوں گے اور فیصلے کے بعد جو بھی آئے گا اس کا پہلا عمرہ شمار کیا جائے گا۔ اب آئندہ سال عمرہ موسم میں اگر کوئی دوبارہ آتا ہے تو اس کا دوسرا عمرہ ہوگا اور وہی فیس دے گا تو اس مسئلے کو ایجنٹوں کے اجتہاد پر کیوں چھوڑا گیا۔ پاکستان میں اس وقت عمرہ ایجنٹ ہی طے کر رہے ہیں کہ کس سے فیس لی جائے گی اور کون اس سے مستثنیٰ ہے۔یہی صورتحال ہندوستان، بنگلہ دیش ، مصر ، انڈونیشیا اور دیگر ملکوں میں بھی ہوگی۔ ہمارے ساتھی ارسلان ہاشمی اس مسئلے پر کافی دنوں سے تحقیق کر رہے ہیں اور وزارت کے بھی کئی عہدیداروں سے رابطہ کیا ہے مگر ہنوز انہیں کوئی شافی جواب نہیں ملا۔ اردو نیوز (اتوار19نومبر) میں ان کی خبر شائع ہوئی ہے جس کے مطابق پاکستان میں ایک عمرہ کمپنی کے عہدیدار نے بتایا ہے کہ ہم ایک و یب سائٹ کے ذریعہ معلوم کرتے ہیں کہ کس معتمر پر فیس لاگو ہوتی ہے اور کس پر نہیں۔ واضح رہے کہ جس ویب سائٹ کا ایڈریس انہوں نے دیا ہے وہ کسی مقامی عمرہ کمپنی کی ہے اور جو وزارت حج عمرہ کی نمائندگی نہیں کرتی۔اسی ابہام کا نتیجہ ہے کہ ایک غیر معروف نیوز چینل ’’النہار‘‘ نے بے پر کی اڑادی کہ سعودی حکومت نے عمرہ فیس منسوخ کردی ہے۔ یہ ویڈیو گوکہ عربی میں ہے مگر یہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں گردش کرتی رہی۔

اس سے اندازہ ہوتاہے کہ اس ابہام کی وجہ سے کس قدر تشویش پائی جاتی ہے۔ عمرہ فیس کے متعلق ایک اور ابہام یہ بھی ہے کہ فیس وصول کرنے کااختیار کس کو ہے۔ آیا فیس عمرہ ویزہ جاری کرنے والے ادارے کا اختیار ہے حالانکہ سعودی حکومت کا واضح اعلان ہے کہ یہ انٹری فیس ہے، عمرہ فیس نہیں۔ اگر یہ عمرہ فیس نہیں تو سعودی سفارتخانے اور قونصلیٹ کیسے وصول کرسکتے ہیں۔ یہ فیس تو سعودی عرب پہنچنے پر لی جانی چاہئے۔ فرض کیا جائے کہ ایک آد می عمرہ ویزہ جاری کرتاہے مگر کسی وجہ سے سفر کرنے سے قاصر رہتاہے تو اس کی رقم کیسے واپس کی جائے گی۔2ہزار ریال فیس کس پر لاگو ہوتی ہے اور کس پر نہیں یہ مستقل مسئلہ ہے مگراسی کے ضمن میں یہ مسئلہ بھی وضاحت طلب ہے کہ فیس کون وصول کرے گااور واپسی کا طریقہ کار کیا ہوگا۔ یہ اور اس طرح کے دیگر اشکالات اس وقت تک برقرار رہیں گے جب تک وزارت حج وعمرہ وضاحت نہیں کرتی۔ امید یہی ہے کہ اس سلسلے میں جلد ہی وضاحت کی جائے گی کیونکہ جس قدر تاخیر ہوگی اسی قدر ابہام پھیلے گا۔

اب خوگر حمد کا تھوڑا سا گلہ بھی سن لیا جائے۔ سعودی حکومت گزشتہ 70برس سے حج اور عمرہ پر آنے والوں سے کوئی فیس نہیں لیتی۔ حکومت نے عمرہ شعبے میں قابل قدر کام کیا ہے ۔ حرمین شریفین کی توسیع اور مقدس شہروں میں تعمیراتی منصوبوں کے علاوہ سارا سال عمرہ موسم کا نتیجہ ہے کہ گزشتہ سال 8ملین مسلمان عمرے کی سعادت حاصل کرنے ارض مقدس پہنچے تھے۔ سیاحت کے شعبے میں یہ غیرمعمولی تعداد ہے۔ اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ 2015ء کے دوران دبئی جانے والے سیاحوں کی تعداد14ملین تھی جبکہ مصر میںگزشتہ سال کے دوران 6 ملین سیاح آئے۔

ان دونوں کی مثال اس لئے دی جارہی ہے کہ یہ دونوں دنیا بھر میں سیاحتی ممالک شمار کئے جاتے ہیں جہاں دنیا سے لوگ سیر وتفریح کرنے آتے ہیں۔ کیا ہمیں معلوم ہے کہ سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے دبئی کو کیا کرنا پڑتاہے۔ کتنے ارب ریال سیاحت کے فروغ میں صرف کرنے پڑتے ہیں۔ اس کے بالمقابل اشتہاری مہم پر ایک ریال صرف کئے بغیر سعودی عرب میں صرف عمرہ ویزے پر آنے والوں کی تعداد8ملین تھی۔ حج پر آنے والے اس سے الگ ہیں۔سعودی عرب کے وژن2030کے مطابق یہ تعداد 30 ملین تک لے جانی ہے۔ 70سال تک معتمرین سے کوئی فیس نہیں لی گئی اور پھر جب فیس مقرر کی گئی تو اسے عام آدمی کی دسترس سے دور ، بہت دور رکھا گیا۔ 2 ہزار ریال خاصی رقم ہے ۔ معتمرین کا تجزیہ کرنے سے اندازہ ہوتاہے کہ ارض مقدس آنے والے 50فیصد لوگوں کا تعلق اوسط اور نچلے طبقے سے ہے ۔ ان میں سے بھی بیشتر سعودی عرب میں مقیم اپنے رشتہ داروں کی مہربانی سے عمرہ کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔ ان کے لئے 2 ہزار ریال کا اضافی بوجھ برداشت کرنا کیسے ممکن ہے۔اس کا مطلب یہ ہے 8ملین معتمرین میں سے آدھی تعداد سے محروم ہوا جائے۔ وژن2030کا تصور دینے والوں نے معتمرین کی تعداد کو30ملین تک لے جانے کا جو خاکہ دیاہے وہ اس فیس کی وجہ سے ممکن نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مقدس شہروں میں معتمرین اور حاجیو ں کو بے انتہاخدمات پیش کی جاتی ہیں۔ ان خدمات کے عوض کچھ فیس مقرر کردی جائے تو کوئی حرج نہیں۔ عمرے کے شعبے سے کئی مقامی شعبے وابستہ ہیں۔اس شعبے میں جتنی تیزی ہوگی ، اتنی تیزی دیگر شعبوں میں ہوگی۔ فیس ضرور رکھی جائے مگر معتمرین کے اوسط طبقے کی دسترس میں رکھی جائے۔ امید ہے فیصلہ ساز ادارہ ضرور نظر ثانی کرے گا۔

شیئر: